کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 394
اللہ تعالیٰ ان کے تمام گناہوں سے درگزر فرمائے۔ اللہ کی قسم اِن جیسا تم پر کوئی حاکم نہ آئے گا۔‘‘ یہ سن کر لوگ اکٹھے ہوئے اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کا جنازہ لایا گیا، معاذ رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور آپ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ یہاں تک کہ جب آپ کے جسد خاکی کو قبر کے پاس لایا گیا تو آپ کی قبر میں معاذ، عمرو بن عاص، اور ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہم داخل ہوئے، پھر جب لوگوں نے آپ کی قبر پر مٹی ڈالنا شروع کی تو معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’اے ابوعبیدہ! تجھ پر اللہ کی رحمت برسے۔ اللہ کی قسم میں ابوعبیدہ کے بارے میں جتنا جانتا ہوں اتنی تعریف ضرور بالضرور کروں گا۔ یقینا جھوٹی تعریف نہ کروں گا، مجھے ڈر ہے کہ کہیں اللہ کا غصہ مجھے نہ گھیر لے۔ اے ابوعبیدہ! میرے علم کے مطابق تو ان پارسا لوگوں میں سے تھا جو اللہ کو بکثرت یاد کرتے ہیں، اور تیری ذات ان لوگوں میں سے تھی جو روئے زمین پر عاجزی وتواضع سے چلتے ہیں، اور جب جاہل وناعاقبت اندیش لوگ انہیں مخاطب کرتے ہیں تو ان سے درگزر کرتے ہیں۔ اور تو ان لوگوں میں سے تھا، جو اپنے ربّ کے لیے سجدہ وقیام کی حالت میں رات گزارتے ہیں، تو ان عادل لوگوں میں سے تھا کہ جب وہ خرچ کرتے ہیں تو اسراف نہیں کرتے، اور نہ کنجوسی سے کام لیتے ہیں، بلکہ درمیانی راستہ اپناتے ہیں۔ اللہ کی قسم! تم میرے علم کی حد تک عاجزی کرنے والوں، تواضع پسندوں اور یتیموں ومسکینوں پر رحم کرنے والوں میں سے تھے اور ان میں سے تھے جو سنگ دل ومتکبر سے نفرت کرتے ہیں۔‘‘ [1] ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے فوت ہونے پر معاذ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کوئی غمگین اور پریشان نہ تھا۔ [2] معاذ رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر دیتے ہوئے یہ خط لکھا: ’’اما بعد! میں اس شخص کے سلسلہ میں اللہ سے ثواب کی امید رکھوں جو اللہ کا امین تھا اور اس کی نگاہ میں اللہ کی بڑی عظمت تھی، اے امیر المومنین! وہ ہمیں اور آپ کو بھی نہایت عزیز تھا، میری مراد ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے تمام گناہوں کو بخش دے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ہم عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کے پاس نیکوکاروں میں سے ہیں، ان کے حق میں بھلائی کے لیے اللہ پر مکمل اعتماد کرتے ہیں۔ میں نے یہ خط آپ کے پاس تحریر کیا ہے درآنحالیکہ موت اور طاعون کی وباء نے پڑاؤ ڈال دیا ہے، کسی کی موت اس کی ذات سے خطا نہیں کرسکی، جو اب تک زندہ ہے وہ بھی عنقریب وفات پانے والاہے۔ اللہ نے اس کے لیے اپنے پاس جو کچھ باقی رکھا ہے وہ اس کے لیے بہتر ہے اور اگر اس نے ہمیں زندہ رکھا یا فوت کر دیا تو بھی اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں اور عوام وخواص کی
[1] تاریخ الذہبی، ص: ۱۷۴ [2] تاریخ الطبری: ۵/ ۳۶ [3] الاکتفاء: ۳/ ۳۰۶