کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 391
کردینے کو طاعون کہتے ہیں اور اس کے علاوہ دیگر اسباب مثلاً فضا وموسم کی خرابی سے لاحق ہونے والے امراض کو مجازی طور پر طاعون کہا جاتا ہے، کیونکہ اس مرض کے تیزی سے پھیلاؤ اور موت کی کثرت میں دونوں مشترک ہوتے ہیں۔ [1] اس بیماری کے اصل سبب کی تشخیص میں فرق کا لحاظ اس لیے کیا گیا ہے تاکہ عام وبائی امراض اور طاعون میں فرق کیا جاسکے، اور یہ رخ متعین کیا جاسکے کہ وہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بالکل صحیح ہے جس میں وارد ہے کہ ’’طاعون‘‘ مدینہ منورہ میں داخل نہ ہوسکے گا جب کہ ’’وباء‘‘ اس میں داخل ہوگی، اور پچھلی صدیوں میں اس کی مثال بھی گزر چکی ہے۔ [2] اس وقت طاعون کی بیماری اس لیے پھیلی تھی کہ مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان طویل خونریزی، مقتولین کی کثرت، فضا کے تعفن، اور مردہ لاشوں کی سٹراند کی کثرت ہوگئی تھی، اور اسی کے نتیجہ میں اس کا پھیلنا ایک فطری عمل تھا، تاہم یہ سب کچھ اللہ کی حکمت وقدرت پر مبنی تھا۔ [3] ۱: حجاز و شام کی سرحد ’’سَرْغ‘‘ سے عمر رضی اللہ عنہ کا واپس لوٹنا: ۱۷ھ میں عمر رضی اللہ عنہ نے دوبارہ شام جانے کا ارادہ کیا، چنانچہ آپ مہاجرین وانصار کو اپنے ساتھ لے کر شام کی طرف روانہ ہوئے، جب حجاز و شام کی سرحد پر مقام ’’سرغ‘‘ پہنچے تو فوج کے کمانڈروں نے آپ سے ملاقات کی اور بتایا کہ سرزمین شام میں بیماری پھیلی ہوئی ہے، اس وقت ’’طاعون‘‘ نے ملک شام کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا، آپ نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا اور پھر واپس لوٹنے کا فیصلہ کرلیا، اس وقت آپ اور دیگر بعض صحابہ میں کیا گفتگو ہوئی اس کو میں ’’شورائیت‘‘ کے باب میں تفصیل سے ذکر کرچکا ہوں۔ [4] عمر رضی اللہ عنہ کے واپس لوٹ جانے کے بعد طوفانی شکل میں طاعون کی بیماری پھیلی جسے طاعون عمواس کا نام دیا جاتا ہے، اس کا زیادہ اثر شام میں تھا۔ اس میں بہت سارے اللہ کے محبوب بندے وفات پاگئے۔ جیسے کہ ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ، جو وہاں کے امیر تھے، معاذ بن جبل، یزید بن ابی سفیان اور حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم آخر الذکر کے بارے میں ایک قول یہ بھی ہے کہ آپ معرکہ یرموک میں شہید ہوئے، نیز سہیل بن عمرو اور عتبہ بن سہیل رضی اللہ عنہما اور دیگر مشاہیر جاں بحق ہوئے اور جب عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ وہاں کے امیر بنائے گئے تب یہ وباء وہاں سے ختم ہوئی، چنانچہ زمام امارت ہاتھ میں لینے کے بعد آپ نے خطبہ دیا اور کہا: اے لوگو! یہ بیماری جب واقع ہوتی ہے تو آگ کی طرح بھڑک اٹھتی ہے، اس سے بھاگ کر پہاڑوں میں پناہ لو، چنانچہ آپ خود وہاں سے نکل گئے اور لوگ بھی آپ کے ساتھ نکلے، پھر مختلف مقامات پر منتشر ہوگئے یہاں تک کہ اللہ نے ان سے اس مصیبت کو دور کردیا۔ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے اس عمل وتدبیر کی خبر عمر رضی اللہ عنہ کو بھی پہنچی لیکن آپ نے اسے ناپسند
[1] اعلام الموقعین، ابن القیم: ۳/ ۱۱۔ الاجتہاد فی الفقہ الإسلامی، ص: ۱۳۶ [2] الخلافۃ والخلفاء الراشدون، ص: ۱۶۶ [3] الشیخان بروایت بلاذری، ص: ۳۲۴ [4] تاریخ القضاعی، ص: ۲۹۴ [5] خلاصۃ تاریخ ابن کثیر، محمد کنعان، ص: ۲۳۶