کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 386
رہو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس مصیبت کو ہٹا دے۔ [1] امام شعبی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ استسقاء کے لیے نکلے، منبر پر تشریف لائے اور ان آیات کی تلاوت فرمائی: فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا (10) يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا (نوح:۱۰،۱۱) ’’تو میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگ لو، یقینا وہ ہمیشہ سے بہت معاف کرنے والا ہے۔وہ تم پر بہت برستی ہوئی بارش اتارے گا۔‘‘ نیز یہ آیت پڑھی: {اِسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْا اِلَیْہِ} ’’تم اپنے ربّ سے استغفار کرو پھر اسی سے توبہ کرو۔‘‘ اتنا کہہ کر آپ منبر سے اتر آئے۔ آپ سے پوچھا گیا کہ استسقاء یعنی پانی کا سوال کرنے سے آپ کو کس بات نے روک دیا؟ آپ نے فرمایا: میں نے آسمان جہاں سے بارش نازل ہوتی ہے بارش طلب کرلی ہے۔[2] اور جب آپ نے پختہ ارادہ کرلیا کہ فلاں دن استسقاء کی نماز پڑھنی ہے اور لوگوں کو لے کر میدان میں نکلنا ہے تو اپنے تمام گورنروں و افسروں کو لکھا کہ فلاں دن وہ سب میدان میں نکلیں اور اپنے ربّ سے عاجزی وتضرع کریں اور اس سے سوال کریں کہ اس قحط سالی کی مصیبت کو ہم سے ہٹا دے۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ مقررہ دن میں نماز استسقاء کے لیے نکلے اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر زیب تن کیے ہوئے تھے، آپ عید گاہ آئے اور لوگوں کے سامنے خطبہ دیا، اللہ تعالیٰ سے عاجزی وگریہ زاری کی ، لوگ بھی الحاح کے ساتھ اللہ سے بارش کا مطالبہ کرنے لگے، آپ صرف استغفار میں لگے رہے اور جب لوٹنے کا وقت ہوا تو اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلا کر اوپر اٹھایا اور چادر کو اس طرح پلٹا کہ دائیں کنارے کو بائیں اور بائیں کو دائیں کردیا، پھر دونوں ہاتھوں کو دراز کیا اور بڑے الحاح کے ساتھ دعا کرنے لگے، اور کافی دیر تک روتے رہے یہاں تک کہ آپ کی داڑھی مبارک تر ہوگئی۔ [3] اور صحیح بخاری میں انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے پانی کے لیے دعا کرتے ہوئے کہا: اے اللہ ہم اپنے نبی محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم (کی دعاؤں) [4] کے وسیلہ سے تیری قربت چاہتے تھے اور تو ہمیں پانی دیتا تھا، اور اب ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا (کی دعاؤں) کے واسطے سے تیری
[1] السیاسۃ الشرعیۃ، د/ إسماعیل بدوی، ص: ۴۰۳۔ محض الصواب: ۱/ ۳۶۴ [2] اخبار عمر، ص: ۱۱۰ [3] طبقات ابن سعد: ۳/ ۳۲۲۔ الشیخان بروایت بلاذری، ص: ۳۲۳ [4] طبقات ابن سعد: ۳/ ۳۲۲۔ أخبار عمر، ص: ۱۱۶