کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 38
رضا مندی مطلوب ہے۔ مجھے اس سے ثواب کی اُمید ہے اور وہی میرا مددگار ہے۔ اس کے نام بہترین ہیں اور وہ دعاؤں کا سننے والا ہے۔اس طرح میں اس کتاب کی تالیف سے بروز بدھ صبح سات بج کر پانچ منٹ پر بتاریخ ۱۳ رمضان المبارک ۱۴۲۲ھ مطابق ۲۸ نومبر ۲۰۰۱ء فارغ ہوا۔اوّل و آخرہمیشہ صرف اللہ ہی کا فضل و کرم ہے، اس سے دعا ہے کہ اس عمل کو شرف قبولیت عطا فرمائے اور کتاب سے استفادہ کرنے کے لیے اپنے بندوں کے سینوں کو کشادہ کردے، اپنے احسان، کرم اور سخاوت سے اس میں برکت عطا فرمائے۔ اس کا فرمان ہے:
مَا يَفْتَحِ اللّٰهُ لِلنَّاسِ مِنْ رَحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِنْ بَعْدِهِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (فاطر:۲)
’’اللہ تعالیٰ جو رحمت لوگوں کے لیے کھول دے سو اس کا کوئی بند کرنے والا نہیں اور جس کو بند کر دے سو اس کے بعد اس کو کوئی جاری کرنے والا نہیں اور وہی غالب حکمت والا ہے۔‘‘
اس مقدمہ کے آخر میں خشیت و انابت سے لبریز دل کے ساتھ اللہ عزوجل کے سامنے اس کے فضل و کرم کا اعتراف کرتے ہوئے کھڑا ہوں، وہ کرم نواز، معین اور توفیق دینے والا ہے۔ اوّل و آخر اس کے جو بھی مجھ پر احسانات ہیں میں اس پر اس کا شکر گزار ہوں اور اس سے دعاگو ہوں کہ الٰہی میرے عمل کو خالص اپنی رضامندی کے ذریعہ سے اور اپنے بندوں کے حق میں نفع بخش بنا، ہر حرف کے بدلے جسے میں نے تحریر کیا ہے ثواب عطا کر دے اور اسے میری نیکیوں کے میزان میں رکھ دے اور میرے ان تمام بھائیوں کو اجر سے نواز دے جنھوں نے میری اس ادنیٰ سی کوشش کو منزل تک پہنچانے میں اپنی بھرپور مدد کی ہے۔ میری ہر اس مسلمان بھائی سے درخواست ہے جو اس کتاب کو پڑھے کہ اس بندۂ عاجز کو دعاؤں میں نہ بھولے۔ ارشاد الٰہی ہے:
رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ (النمل:۱۹)
’’اے پروردگار! تو مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر انعام کی ہیں اور میرے ماں باپ پر اور میں ایسے نیک عمل کرتا رہوں جن سے تو خوش رہے، مجھے اپنی رحمت سے نیک بندوں میں شامل کرلے۔‘‘
سبحانک اللّٰه وبحمدک أشہد أن لا الٰہ الا أنت أستغفرک وأتوب الیک
وآخر دعوانا أن الحمد للّٰه رب العالمین
الفقیر الی عفو ربہ ومغفرتہ
علي محمد محمد الصلابي