کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 379
قحط سالی کے موقع پر ہی ایک دن لوگوں نے کچھ اونٹوں کو ذبح کیا اور سب نے کھایا، لیکن بہترین گوشت آپ کے لیے رکھ دیا، جب کوہان اور کلیجے کا منتخب گوشت ہنڈیا میں رکھ کر آپ کے سامنے لاگیا گیا تو آپ نے فرمایا: یہ کہاں سے ملا؟ لوگوں نے بتایا کہ اے امیر المومنین! آج ہم نے اونٹ ذبح کیا تھا، اسی میں سے یہ گوشت ہے۔ آپ نے فرمایا: افوہ! ہائے! افسوس! میں کتنا برا حاکم ہوں، اگر میں (ان اونٹوں کے) بہترین گوشت کھاؤں، اور لوگ ان کی ہڈیاں کھائیں۔ اٹھاؤ، لے جاؤ اس برتن کو اور مجھے دوسرا کھانا دو، پھر آپ کے سامنے روٹی اور تیل پیش کیا گیا اور آپ اپنے ہاتھ سے روٹی توڑ کر تیل میں ملا کر کھانے لگے، پھر فرمایا: اے یرفا [1] سن! گوشت کے اس برتن کو ’’یثمع‘‘[2] والوں تک پہنچا دو، میں تین دن سے ان کے پاس نہیں گیا ہوں، میرا خیال ہے کہ انہوں نے اب تک کھانے کو ہاتھ نہیں لگایا ، لے جاؤ اور ان کے سامنے اسے رکھ دو۔ [3] یہ ہے اسلامی سیاست وحکومت کا فن اور یہ ہے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی مثالی شخصیت کہ آپ اپنی خواہشات اور ضرورتوں پر رعایا کی ضروریات وخواہشات کو ترجیح دیتے ہیں اور آپ کی رعایا آپ سے عمدہ کھانا کھاتی ہے۔ آپ امیر المومنین ہیں لیکن حکومت اور زندگی کے بوجھ کو اپنی رعایا سے کہیں زیادہ اٹھانے کو تیار ہیں، اور رعایا کے مقابلے میں کئی گنا مشکلات ومصائب سے دوچار ہوتے ہیں۔ مزید برآں احتیاط اور احساس ذمہ داری کا یہ دائرہ آپ کی ذات تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس احتیاط اور ورع وتقویٰ کی حدود وقیود کا دائرہ اپنے خاندان تک وسیع کرنا چاہتے ہیں، تاکہ آپ کے اہل خانہ رعایا کے دکھ درد اور تکلیف کو ان سے زیادہ محسوس کریں۔ چناں چہ ’’عام الرمادہ‘‘ میں قحط کے موقع پر آپ نے ایک دن اپنے ایک لڑکے کے ہاتھ میں ایک خربوزہ دیکھا، فوراً اس کو ٹوکا اور کہا: کیا خوب، کیا خوب، امیر المومنین کی اولاد! امت محمدیہ بھوک سے لاغر ہوتی جا رہی ہے اور تو پھل کھاتا ہے؟ بچہ روتے ہوئے بھاگ گیا اور عمر رضی اللہ عنہ مسلسل اپنی بات دہراتے رہے، یہاں تک کہ آپ نے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ کو بتایا گیا کہ ان کے بچے نے ہتھیلی بھر کھجور کی گٹھلیوں کے بدلے اسے خریدا ہے۔ [4] اللہ کے سامنے فرائض وواجبات حکومت کی جواب دہی کا احساس آپ پر غالب رہا جس کے نتیجہ میں آپ نے خود کو نفس پرستی سے دور رکھا، اور ایسے وقت میں جب کہ دنیا قحط وخشک سالی کا سامنا کررہی تھی، آپ نے ہر شرعی وسیلہ وسبب اختیار کیا، بکثرت نمازیں پڑھتے، پیہم استغفار کرتے اور ہمہ وقت مسلمانوں کو غذا
[1] تاریخ الطبری: ۵/ ۷۸ [2] فن الحکم، ص: ۷۱ [3] طبقات ابن سعد: ۳/ ۳۱۴ [4] طبقات ابن سعد: ۳/ ۳۱۵۔ محض الصواب: ۱/ ۳۶۳ [5] محض الصواب: ۱/ ۳۶۲