کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 378
کہا: ایسا لگتا ہے کہ تمہیں گھی کبھی میسر نہیں آیا؟ بدوی نے کہا: جی ہاں، فلاں فلاں وقت سے آج تک نہ میں نے گھی اور روغن چکھا ہے اور نہ کسی کو یہ کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس کی بات سن کر سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے قسم کھا لی کہ جب تک میری عوام کو فراخی کی زندگی نہ مل جائے اس وقت تک نہ وہ گوشت کھائیں گے اور نہ گھی کو ہاتھ لگائیں گے۔ تمام راوی اس بات پر متفق ہیں کہ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے اس قسم کو پورا کرنے کا عزم مصمم کرلیا تھا اور اسی وجہ سے جب بازار میں گھی اور دودھ سے بھرے ہوئے ڈبے فروخت ہونے کے لیے آئے، تو عمر رضی اللہ عنہ کے غلام نے آپ کے لیے چالیس درہم میں ایک ڈبہ گھی اور ایک ڈبہ دودھ خریدا اور لے کر عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور کہا: امیر المومنین! اللہ نے آپ کی قسم کو پورا کردیا، اور آپ کو بہت اجر وثواب ملا، اب بازار میں دودھ اور گھی کے ڈبے آگئے ہیں اور میں نے انہیں چالیس درہم میں خرید لیا ہے۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم نے مہنگی قیمت میں خریدا، ان دونوں کو اللہ کے راستے میں صدقہ کردو، میں ناپسند کرتا ہوں کہ اسراف کا لقمہ کھاؤں، اور اس کے بعد ہی فرمایا: میں رعایا کے دکھ درد کو کیسے سمجھ سکوں گا جب تک کہ میں بھی ان کی حالت سے نہ گزروں۔ [1] عمر فاروق کی زبان سے نکلا ہوا آخری جملہ ایک تابناک اور زرّیں قول ہے، جس میں پوری انسانیت کے لیے سیاست کے عظیم الشان اصولوں میں سے ایک اصول پنہاں ہے، قابل غور ہے یہ جملہ کہ: ’’میں رعایا کے دکھ درد کو کیسے سمجھ سکوں گا جب تک کہ میں بھی ان کی حالت سے نہ گزروں۔‘‘ [2] ’’عام الرمادہ‘‘ میں عمر رضی اللہ عنہ قحط سے اس قدر متاثر ہوئے کہ آپ کے جسم کا رنگ بدل گیا، عیاض بن خلیفہ کا بیان ہے کہ میں نے ’’عام الرمادہ‘‘ میں عمر رضی اللہ عنہ کو اس حال میں دیکھا کہ ان کا جسم سیاہ پڑ گیا تھا، حالانکہ آپ عربی تھے، گھی اور دودھ کھاتے تھے، لیکن جب قحط نے تمام لوگوں کو اپنی زد میں لے لیا تو آپ نے دودھ اور گھی کو اپنے لیے منع کرلیا اور تیل کھانے پر اکتفا کرنے لگے، یہاں تک کہ آپ کے جسم کا رنگ بدل گیا اور آپ نے بھوک کی کافی مشقتیں برداشت کیں۔ [3] اسلم کا بیان ہے کہ ہم آپس میں کہتے تھے: اگر ’’عام الرمادہ‘‘ میں اللہ تعالیٰ نے ہم سے قحط سالی کو نہ دور کیا تو ہمیں یقین ہے کہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے تئیں اپنی واجبات وذمہ داریوں کے شدید احساس وغم سے وفات نہ پاجائیں۔ [4] آپ اکثر روزہ رکھتے تھے۔ [5] عام الرمادہ میں صرف شام کو تیل اور روٹی سے ملا ہوا کھانا کھاتے تھے،
[1] اقتصادیات الحرب فی الاسلام، ص: ۲۵۰ [2] فن الحکم، ص: ۶۸۔ البدایہ والنہایۃ: ۷؍۹۸۔ تاریخ الطبری: ۵؍۷۵۔