کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 377
وہاں آباد ہوئے، نتیجتاً ان تمام اسباب ووسائل نے ان شہروں کو تہذیب وتمدن کا منارہ بنا دیا جہاں مختلف علوم ومعارف اور مختلف صنعت وحرفت کی نمو وترقی ہوئی۔ [1] اقتصادی بحران (عام الرمادہ) : سیّدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی مدت خلافت میں اسلامی سلطنت ابتلاء وآزمائش سے دوچار ہوئی اور اس میں کوئی تعجب نہیں، کیونکہ ابتلاء وآزمائش کے دور سے تمام اقوام، ممالک، جماعتوں، اور افراد کو ہمیشہ گزرنا پڑا ہے، یہ ایک قدیم سنت رہی ہے، امت مسلمہ بھی دیگر اقوام کی طرح ایک امت ہے، اس میں بھی اللہ کی سنت عادلہ قائم وجاری ہوتی ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ بہرحال دورِ فاروقی کی سب سے عظیم آزمائش ’’عام الرمادہ‘‘ اور ’’طاعون عمواس‘‘ کی شکل میں منظر عام پر آئی۔ ہم اس مقام پر دونوں آزمائشوں سے متعلق بڑی تفصیل سے گفتگو چاہتے ہیں اور واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ان بحرانی حالات میں عمر رضی اللہ عنہ کا کیا تعامل رہا، اور کس طرح آپ نے جائز اسباب کو اختیار کرکے اور اللہ تعالیٰ سے دعا وگریہ وزاری کرکے ان آزمائشوں سے سرخرو ہوئے؟ چناں چہ ۱۸ھ میں جزیرہ عرب میں سخت قحط پڑا، لوگ خوراک کے لیے ترس گئے۔ بھوک کی شدت اور خوراک کے فقدان کا یہ عالم تھا کہ درندے بھاگ بھاگ کر انسانوں کے پاس پناہ لیتے تھے، آدمی بکری ذبح کرتا تھا لیکن کھا نہ پاتا کیونکہ وہ اس قابل نہ ہوتی، خشک سالی کی وجہ سے بہت سے مویشی بھوک کی تاب نہ لاسکے اور مرگئے، اس سال کا نام ’’عام الرمادہ‘‘ رکھا گیا، اس لیے کہ ہوا مٹی اور دھول کو راکھ کی طرح خوب اڑاتی تھی، سخت قحط پڑا، ایک لقمہ کھانا بھی ملنا مشکل ہوگیا تھا، لوگ دور دراز کے دیہی علاقوں سے بھاگ بھاگ کر شہروں میں جاتے یا ان کے قریب قیام کرتے اور اس عظیم مصیبت سے نجات پانے کے لیے امیر المومنین کی طرف سے کسی حل اور پیش قدمی کے منتظر تھے۔ جب کہ جناب عمر رضی اللہ عنہ اس مصیبت کو سب سے زیادہ محسوس کرنے والے اور اس کے خطرناک نتائج سے سب سے زیادہ آگاہ تھے، [2]بہرحال عمر رضی اللہ عنہ نے اس بحرانی کیفیت سے نمٹنے میں جو حکمت عملی اختیار کی اسے چند نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے: ۱: آپ نے خود کو دوسروں کے لیے نمونہ بنا کر پیش کیا: ’’عام الرمادہ‘‘ میں قحط کے موقع پر سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے کھانے کے لیے گھی سے چپڑی ہوئی روٹی لائی گئی، آپ نے ایک بدوی آدمی کو بلایا تاکہ وہ بھی آپ کے ساتھ کھانے میں شریک ہوجائے، بدوی نے کھانے میں شریک ہو کر کھانا شروع کیا اور گھی کو لقمہ سے پلیٹ کے کنارے لا کر شوق سے کھانے لگا۔ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے اس سے
[1] تاریخ الدعوۃ، ص: ۳۴۱