کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 37
تھا، جس کے لیے آپ ہمہ تن تیار تھے اور اسلام قبول کرنے کے بعد سے شہادت کا درجہ پانے تک آپ کے دل میں یہ جذبہ (اللہ کی ملاقات کا) موجزن تھا۔
اس کتاب میں میں نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اسلام کو کیسے سمجھا اور لوگوں کے ساتھ کس طرح زندگی گزارتے رہے اور اپنے دور خلافت میں آپ نے تمام تر معاملات کے دھارے میں کیسے اسے موثر بنایا۔ میں نے آپ کی شخصیت کو سیاسی، عسکری، اداری اور عدالتی جیسے متعدد گوشوں سے نکھارنے کی کوشش کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ جب آپ رعایا کی حیثیت سے تھے اس وقت کی آپ کی معاشرتی زندگی اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد خلافت سنبھالنے کے بعد کی معاشرتی زندگی دونوں میں آپ کیسے رہے۔ آپ کے اس سنہری دور کو واضح کرنے پر میں نے زور دیا ہے جس میں مالیاتی، عدالتی، اداری اور عسکری نظاموں کو ترقی ملی۔
یہ کتاب عظمت فاروق کی ایک دلیل ہے، جو ہر پڑھنے والے کو احساس دلاتی ہے کہ آپ ایمان، علم، فکر، گفتگو، اخلاق اور نقوش کے پہاڑ تھے۔ آپ نے عظمت و برتری کو ہر طرف سے سمیٹ لیا تھا اور یہ عظمت آپ کو گہری بصیرت، اسلام کو عملاً کر دکھانے، اللہ کے ساتھ مکمل تعلق رکھنے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کے نتیجے میں میسر آئی تھی۔ سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ان اماموں میں سے ہیں جنہوں نے لوگوں کے لیے نشانِ راہ متعین کیا اور جن کے اقوال و افعال پر اس دنیا میں عمل کرتے ہوئے لوگ فخر محسوس کرتے ہیں۔ درحقیقت آپ کی سیرت ایمان کے طاقتور سر چشموں میں سے ایک ہے اور صحیح اسلامی جذبہ کی علامت اور اس دین کی صحیح سمجھ کے لیے ایک منارہ ہے۔ امت مسلمہ کو ان باصلاحیت ہستیوں کو پڑھنے کی سخت ضرورت ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پیروی کرتے ہیں اور سرتاپا بلند کردار کا نمونہ ہیں۔ یہ بلند ہستیاں قربانیاں پیش کرکے ان بلند معانی و کردار کو زندہ کرتی ہیں جسے لوگ دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں۔ بے شک خلفائے راشدین اور صحابہ کرام کی تاریخ ہر دور میں امت مسلمہ کے لیے ایک یادگار ہے، اس سے فائدہ اٹھانا اسی طرح ممکن ہے کہ ان بزرگوں کے طرز زندگی کو سامنے رکھیں اور ان سرکردہ شخصیتوں کے پاک نظریات کو امت کے افراد موجودہ دور کے احوال و ظروف میں عملاً ثابت کر دکھائیں، تاکہ کسی کا یہ خیال نہ ہو کہ یہ نظریات اور دروس و عبرت کی باتیں صرف اس زمانے کے موافق تھیں، اب دوبارہ اس پر عمل کرنے کے لیے اسی طرح کا زندہ ماحول وجود میں لانا ضروری ہے۔ حالانکہ حقیقت و واقعات اس بات پر گواہ ہیں کہ جب جب ایمانی قوت میں حرارت رہی اور اللہ کی طرف بڑھنے (شہادت کا درجہ پانے) کا جذبہ موجزن رہا اور مسلمان اللہ کی طرف پیش رفت کرنے پر قائم رہے تو اللہ تعالیٰ نے ایسے وقت میں اپنے اولیاء اور پیاروں کی مدد کی ذمہ داری لی اور زندگی کے ناخوشگوار ماحول کو ان کے موافق کردیا۔
میں نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شخصیت، کارناموں اور آپ کے دور کی تحقیق میں اپنی وسعت کے مطابق محنت کی ہے، غلطیوں سے پاکی اور لغزشوں کے عدم امکان کا میرا دعویٰ نہیں ہے۔ صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور