کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 366
ہے، پھر آپ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو خط لکھ کر یہ حکم دیا کہ ان مجاہدین کی رہائش کے لیے ایسی جگہ منتخب کریں جہاں کی آب وہوا ان کے اور ان کے مویشیوں کے موافق ہو اور سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نیز حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کو (جو اسی قسم کے کاموں پر مامور تھے) رہنما بنا کر بھیجا۔ وہ دونوں مناسب مقام تلاش کرتے ہوئے کوفہ پہنچے جو کہ ’’حیرہ‘‘ اور دریائے ’’فرات‘‘ کے درمیان واقع ہے، اسے کوفہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کی زمین ریتیلی اور کنکریلی ہے اور ہر ایسی جگہ جو ریتیلی وکنکریلی ہو اسے عربی میں کوفہ کہتے ہیں۔ [1] چناں چہ اس خط کو پا کر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ محرم ۱۷ھ میں مجاہدین کو لے کر مدائن سے کوفہ منتقل ہوگئے، سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کی یہ خواہش تھی کہ مسلمان خیموں کو اپنی رہائش گاہ بنائیں، اس کی وجہ یہ تھی کہ طرزِ سکونت ان کے جنگی مفاد میں کافی متعاون، دشمنوں کو مرعوب کرنے میں کافی مؤثر اور سنگین حالات میں انہیں پیچھے ہٹنے یا دارالخلافہ واپس بلانے میں اہم کردار ادا کرسکتی تھی، ہر چند کہ آپ ایسی ہی رہائش گاہ کے خواہاں تھے، لیکن جب کوفہ اور بصرہ کے باشندوں نے بانس اور نرکل کے مکانات بنانے کی آپ سے اجازت مانگی تو آپ نے ان کو روکنا پسند نہ کیا اور اجازت دے دی، اور ان لوگوں نے سرکنڈے اور بانسوں کی جھونپڑیاں اور مکانات بنا لیے، لیکن ایک مرتبہ جب کوفہ اور بصرہ میں بھیانک آگ لگ گئی تو یہ سارے مکانات بھی جل کر خاکستر ہوگئے، اس وقت وہاں کے لوگوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کچی اینٹ اور گارے کے مکانات بنانے کی اجازت مانگی، تو آپ نے کہا: ٹھیک ہے، بنا لو۔ البتہ اونچی عمارتیں اور تین کمروں سے زیادہ نہ بنانا، اور عتبہ رضی اللہ عنہ واہل بصرہ کے نام بھی اسی طرح کا خط ارسال کیا۔ اور بصرہ والوں کو بسانے، نیز اس کی آبادکاری کی نگرانی ابوالجرداء عاصم بن الدلف کو سونپی، جب کہ کوفہ والوں کو بسانے اور ان کی آباد کاری کی ذمہ داری ابو ہیاج بن مالک اسدی کے سپرد کی۔ چنانچہ ابو ہیاج نے فاروقی منصوبہ بندی کے مطابق کوفہ کی آبادکاری کا کام شروع کیا، عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے شہر کوفہ کا خاکہ یوں تیار کیا تھا کہ اس کی بڑی سٹرکیں چالیس (۴۰) ہاتھ چوڑی اور اس سے چھوٹی تیس (۳۰) ہاتھ چوڑی اور سب سے چھوٹی سٹرکیں بیس (۲۰) ہاتھ چوڑی ہوں، گلیاں سات (۷) ہاتھ سے کم کی چوڑائی میں نہ ہوں۔ جب کہ آباد سیکٹروں کی چوڑائی ساٹھ (۶۰) ہاتھ ہو۔ شہر کوفہ کا خاکہ تیار کرتے وقت سب سے پہلے جامع مسجد کی جگہ متعین کی گئی، بایں طور کہ کوفہ کے بیچوں بیچ (قلب) میں ایک طاقتور تیر انداز کھڑا ہوا، اور اس نے اپنے دائیں بائیں، آگے پیچھے، پوری طاقت سے تیر پھینکا، اور جہاں وہ تیر واقع ہوئے اس کے پیچھے لوگوں کو مکانات بنانے کا آپ نے حکم دیا۔ مسجد کے سامنے دو سو (۲۰۰) ہاتھ لمبا ایک سائبان بنوایا، اس سائبان کے ستون سنگ مرمر کے بنائے گئے، یہ سنگ مرمر فارسی بادشاہوں کے تھے، اس کی اونچائی رومی عبادت گاہوں کی اونچائی کے ہم مثل تھی۔ اہل کوفہ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے لیے مسجد کے قریب ہی ایک گھر بنایا، گھر اور مسجد کے درمیان دو سو (۲۰۰)
[1] فتوح البلدان، البلاذری، ص: ۳۴۱ [2] فتوح البلدان، ص: ۲۷۵ [3] اقتصادیات الحرب فی الإسلام، ص: ۲۴۷ [4] دراسات فی تاریخ المدن العربیۃ الإسلامیۃ، د/ عبدالجبار ناجی، ص: ۱۸۳