کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 365
غلہ جات، دودھ، اور اونی کپڑے وغیرہ دیہی پیداواری مصنوعات اندرون شہر آسکیں۔ بصرہ کی زمین سے متعلق جب عمر رضی اللہ عنہ نے عتبہ بن غزوان رضی اللہ عنہ کو ہدایت بھیجیں تو لکھا کہ یہ خطہ کافی زرخیز ہے، دریاؤں، چراگاہوں اور ہری بھری جھاڑیوں کے قریب ہے۔ [1] عمر رضی اللہ عنہ کا اس موقع ومنظر کا منتخب کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کی جنگی سیاست کافی محفوظ اور آبادکاری کی تنظیم وتخطیط کافی دقیق تھی اور اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ یہ علاقہ جنگ وعدم جنگ دونوں حالتوں میں کارآمد ثابت ہو۔ & بہرحال اس منصوبہ بند نو آبادیاتی نظام کے ذریعہ سے آبی وسائل اپنے دائرہ تحفظ میں آگئے اور لکڑی جیسی گھریلو ضروریات اور غذائی اجناس کی درآمد ہونے کا راستہ بالکل صاف ہوگیا جو ہر شہری کی اہم ضروریات زندگی میں داخل ہیں۔ & اس بات کی مکمل تحقیق کی گئی کہ دارالخلافہ سے محاذ جنگ تک امداد پہنچنے میں کوئی قدرتی رکاوٹ مثلاً سمندر وغیرہ نہ حائل ہوں۔ [2] یاد رہے کہ اسلامی لشکر میں قبائلی تنظیم کی رعایت کرتے ہوئے ہر قبیلہ کے لیے الگ الگ خطے بھی خاص کیے گئے تھے اور ہر قبیلہ کے مکانات قریب قریب رکھے گئے تھے۔ [3] شہر کوفہ: تمام مؤرخین اس بات پر متفق ہیں کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اس شہر کے مؤسس اوّل ہیں۔ انہوں نے ہی اس جگہ کا انتخاب کیا تھا اور مدائن کے محاذ جنگ پر اہل فارس سے مسلمانوں کی فاتحانہ معرکہ آرائی کے کافی عرصہ بعد آپ نے اس کا خاکہ بنانے کا حکم دیا تھا، بصرہ کی تنظیم وآبادکاری کے وقت جو حکمت عملی اپنائی گئی بالکل وہی حکمت عملی یہاں بھی اپنائی گئی۔ کیونکہ اس جگہ کے انتخاب، یا یہاں کے مجاہدین کو خیمہ زن کرنے میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے سامنے فوجی اسباب ومصلحتیں سب سے اہم تھیں۔ [4] چنانچہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی رہنمائی وہدایات کے بعد سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے شہر کوفہ کی داغ بیل ڈالی، اور اسے بسانے ومنظم کرنے میں خود کو فاروقی نظریہ تنظیم و آباد کاری کے تابع کردیا، دراصل شہر کوفہ کو بسانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ جب عمر رضی اللہ عنہ نے قادسیہ اور مدائن کے محاذ جنگ سے فاتحانہ شان وشوکت کے ساتھ لوٹنے والے مجاہدین کے چہروں کے رنگ وروپ کو بدلا ہوا دیکھا تو آپ کو محسوس ہوا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کی آب وہوا ان کو راس نہیں آئی
[1] تاریخ الدعوۃ الإسلامیۃ، ص: ۳۳۴ [2] تاریخ الدعوۃ الإسلامیۃ، ص: ۳۳۴ [3] تاریخ الدعوۃ الإسلامیۃ، ص: ۳۳۴ [4] تاریخ الدعوۃ الإسلامیۃ، ص: ۳۳۴