کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 364
چھت کے لیے بانسوں کے چھپر استعمال کیے، پھر بعد کے ادوار میں ان دونوں کو پختہ مکانات کی شکل میں تیار کرایا گیا۔ مختلف قبائل کے لیے الگ الگ احاطہ کھینچ کر انہیں مکانات دئیے گئے۔ انہوں نے بصرہ کی سب سے بڑی سٹرک کو ساٹھ (۶۰) ہاتھ چوڑی اور دوسری عام سٹرکوں کو بیس (۲۰) ہاتھ چوڑی، جب کہ گلیوں کو صرف سات (۷) ہاتھ کی چوڑائی میں بنایا، اور ہر احاطہ کے بیچ میں اصطبل اور قبرستان کے لیے ایک کشادہ زمین خالی چھوڑ دی اور گھروں کو قریب قریب بنایا۔ [1] عمر رضی اللہ عنہ نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو حکم بھیجا کہ بصرہ والوں کے لیے ایک نہر کھودیں، چنانچہ آپ نے تین فرسخ لمبی نہر ’’اَبلہ‘‘ سے بصرہ تک کھدوائی۔ [2]گویا مسلم قوم شہروں کی آبادکاری اور پلاننگ کرنے والے انجینئروں کا ہراول دستہ ہے۔ ’’ابلہ‘‘، ’’دست‘‘، اور ’’میسان‘‘ کی فتوحات کے بعد بصرہ کی اقتصادی حالت کافی بہتر ہوگئی [3] اور دوسرے مقامات سے بھی آکر لوگ وہاں آباد ہونے لگے، چونکہ بصرہ کے اوّلین شہری خالص طالب جہاد تھے اور بعد کے لوگ خالص طالب مال، اس لیے مختلف قبائل، دولت کے حریص اور متعدد قسم کے تاجران وہاں آکر بس گئے اور وہاں کی آبادی بہت زیادہ بڑھ گئی۔ [4] شہروں کو بساتے اور آباد کرتے وقت جو فوجی و اقتصادی پالیسیاں سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے تھیں علمائے محققین ومؤرخین نے انہیں ان نکات میں پیش کیا ہے: & سر زمین عرب کی آخری سرحد پر بالائی علاقہ میں عجم کی سرزمین سے بالکل متصل ان شہروں کو بسایا گیا، تاکہ یہ شہر عربوں کے لیے محفوظ و مضبوط قلعوں کا کام کریں، اور عجم اس راستہ سے حملہ آور ہونے کی کوئی بھی تمنا نہ کریں۔ & ان شہروں کے محل وقوع کا عربوں کی سکونت کے لیے موزوں ہونا کیونکہ اس وقت وہی جہاد فی سبیل اللہ کے روح رواں تھے، انہیں ایسے ہی مقامات راس آتے تھے جہاں اونٹوں کے لیے چراگاہیں ہوں، جیسا کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس کی وضاحت کی تھی۔ & ان شہروں کو بساتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ ایک طرف سرزمین عرب کے خشکی کے علاقوں سے ان کا تعلق ہو تاکہ عربوں کو اپنے مویشیوں کے لیے چراگاہیں میسر ہوں جب کہ دوسری طرف اس بات کی رعایت کی گئی کہ سرزمین عجم کے دیہی سرسبز علاقوں سے بھی ان کی سرحدیں متصل ہوں تاکہ پھل،
[1] الفاروق عمر بن الخطاب، محمد رشید رضا، ص: ۱۷۷ [2] تاریخ الدعوۃ الإسلامیۃ، ص: ۳۳۳