کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 362
آپ اس وقت سمندری سواری سے عربوں کی عدم واقفیت سے ڈرتے تھے۔ لیکن جب مصر میں اسلامی افواج کا مشاہدہ کرلیا کہ ان میں دریائی وسمندری راستوں کو پار کرنے کی صلاحیت ہے تو عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو کھاڑی کی شکل میں وہ نہر کھودنے کی اجازت دے دی جو دریائے نیل اور بحر احمر کے درمیان بہنے لگی اور اسی راستے سے غلہ وغیرہ کی امداد مصر سے حجاز پہنچائی جانے لگی۔ [1] اسلامی سلطنت کی حدود میں وسعت، فتوحات کی کثرت اور مسلمانوں کی آبادیوں میں طویل مسافت کے پیش نظر عمر رضی اللہ عنہ نے شہروں کو بسایا، اور مجاہدین کا لشکر تیار کیا، اور افواج کو ایسی جگہوں کی ضرورت بھی تھی جہاں وہ سفر کی تکان دور کرسکیں، ٹھنڈ کے موسم میں رک سکیں، اور جنگ سے واپس ہو کر وہاں آرام کرسکیں، دراصل شہروں کے بسانے کے یہی حقیقی اسباب تھے۔ چوں کہ اسلامی فتوحات کا بنیادی مقصد اسلامی دعوت کی نشر واشاعت، افراد، جماعت اور اقوام تک اس کی تبلیغ ہے اس لیے اسلامی زندگی کا ایسا تصور دینا ضروری تھا جسے غیر مسلم افراد، جماعتیں اور قومیں محسوس کریں، چنانچہ اسلامی شہروں کو اسلامی طرز پر بنایا اور آباد کیا گیا جن میں پوری اسلامی زندگی کا عکس بطور نمونہ دیکھا جاسکتا تھا۔ کوفہ، بصرہ، فسطاط اور موصل اسلامی شہر تھے، ہر شہر کے بیچ میں ایک جامع مسجد بنائی گئی، اور اس کے اردگرد مجاہدین اسلام کے مکانات تعمیر ہوئے، اس طرح ان مثالی معاشروں میں اسلامی فکر وقوت مکمل طور سے کارفرما رہی، ایسی اسلامی قوت جسے ہر فوجی میں دیکھا جاسکتا تھا، اور ایسی فکر جو کتابِ الٰہی کی ترجمان تھی، ایسا کامل اسلامی معاشرہ تھا جو اپنے تمام تر معاملات میں اسلامی احکامات کو نافذ کرتا تھا، ہمیشہ اللہ کے راستے میں جان کی قربانی دینے کو تیار رہتا تھا، انہی معاشروں سے اسلام مفتوحہ شہروں پر سورج بن کر طلوع ہوا اور اپنے ماننے والوں کو سیدھا راستہ دکھایا، اپنے فیصلوں میں عدل وانصاف کا عملی نمونہ پیش کیا، اور جس نے اسلام قبول کیا اسے اپنے میں شامل کیا، دعوت الی اللہ اور غیر مسلموں کو اسلامی دعوت دینے کا یہی سب سے کامیاب ترین اسلوب ہے۔ شام میں اسلامی شہروں کو نئے سرے سے نہیں آباد کیا اس لیے کہ وہاں سے بھاگ کر جانے والے رومیوں کے مکانات پہلے سے خالی پڑے تھے، اس پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگیا اور وہ مکانات انہیں مالِ غنیمت کے طور پر ملے، جس کی وجہ سے انہیں نئے مکانات بنانے کی ضرورت ہی نہیں پڑی، اور دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ وہاں پہلے سے عربوں کی کافی آبادی تھی، ہر قبیلے کے اقرباء موجود تھے، اور اسی وجہ سے شام میں اسلامی افواج بھی زیادہ تھیں۔[2] عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں جو اہم شہر بنائے وبسائے گئے ان کی تفصیل یہ ہے:
[1] الفاروق عمر، الشرقاوی، ص: ۲۵۴، ۲۵۵ [2] أخبار عمر، ص: ۱۲۷ [3] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۲۳۰ [4] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۲۳۰ [5] اقتصادیات الحرب فی الإسلام، د/ غازی بن سالم، ص: ۲۴۵ [6] تاریخ الدعوۃ الإسلامیۃ، د/ جمیل المصری، ص: ۳۳، ۳۴۰