کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 360
مطابق ہر سال اپنے مسلم حکمران کو جب تک جزیہ ادا کرتا رہے گا اسے پوری طرح حفظ وامان حاصل ہوگا۔ [1]یہ لوگ بھٹکے مسافروں کو راستہ دکھائیں گے، سٹرکوں اور راستوں کی اصلاح خود کریں گے، جو مسلمان فوجی ان کے پاس سے گزریں گے یا ان کے پاس ٹھہریں گے یہ لوگ ان کی مہمان نوازی کریں گے، اور مسلمانوں کے خیر خواہ رہیں گے، لیکن اگر دھوکا دیا اور عہد نامہ کو بدل دیا تو ہمارا معاہدہ ان سے ختم ہے۔‘‘ یہ معاہدہ محرم ۱۹ھ میں لکھا گیا اور اس پر قعقاع بن عمرو اور نعیم بن مقرن رضی اللہ عنہ نے دستخط کیے۔ [2] اس عہد نامہ سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ کے افسران وگورنران اصول وتہذیب اور ملکی سیاست سے بخوبی واقف تھے، عمرانیات یعنی آباد کاری کے لوازم کو وہ جانتے تھے، اور اسی وجہ سے مفتوحہ ممالک کی اقوام پر واجب ہوتا تھا کہ وہ سڑکیں اور راستے جو تاجروں اور افواج کے لیے معاون ہوتے ہیں، بنانے کے خود ذمہ دار ہوں گے۔ ۱۶ھ ہی سے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی تمام تر توجہات عراق میں شہروں کو بسانے، نہریں کھدوانے اور پل بنانے پر مرکوز رہیں۔ [3] اور عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ نے ’’رہا‘‘ والوں سے جو معاہدہ کیا تھا اس کا مضمون یہ تھا: ’’بسم اللہ، یہ عہد نامہ عیاض بن غنم کی طرف سے ’’رہا‘‘ کے پادریوں کے لیے ہے، اگر تم نے میرے لیے شہروں کے دروازے کھولے اور یہ اقرار کیا کہ ہر آدمی کی طرف سے بطور جزیہ ایک دینار اور دو مد گیہوں دو گے، تو تم اور جو تمہارے ساتھ ہیں سب کی جان ومال کو امان ہے، تمہارے لیے ضروری ہے کہ بھٹکے مسافروں کو راستہ دکھاؤ گے، پلوں اور سڑکوں کی تعمیر کرو گے، مسلمانوں کے خیر خواہ رہو گے، اور اللہ گواہی کے لیے کافی ہے۔‘‘ [4] جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ کسی زمانے میں دریائے نیل سے بابلیون کے قلعہ کے قریب بحر احمر تک ایک کھاڑی بہتی تھی جو حجاز کو مصر سے ملاتی تھی اور وہی تجارت کا راستہ تھا، لیکن رومیوں نے اس کو اہمیت نہ دی اور وہ پٹ گئی، تو آپ نے مصر کے گورنر عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اس کھاڑی کی دوباری کھدائی کرائیں، چنانچہ آپ نے اسے دوبارہ کھدوایا اس طرح حجاز اور مصر کے دارالحکومت فسطاط کے درمیان کا راستہ آسان ہوگیا اور دونوں سمندروں کے درمیان تجارت کی خوشحالیاں بحال ہوگئیں۔ فسطاط میں اس کھاڑی کے کنارے تفریح گاہیں، باغات اور خوب صورت مکانات بنائے گئے، اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اس کھاڑی کا نام ’’خلیج
[1] عصر الخلافۃ الراشدۃ، ص: ۲۲۸ [2] الدور السیاسی ، صفوۃ، ص ۱۸۹، ۱۹۰ [3] الاحکام السطانیۃ، الماوردی، ص: ۱۸۷، ۱۸۸