کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 36
اسلامی مملکت کے کون کون سے اخراجات تھے اور خراج کی زمین میں آپ کا اجتہاد اور اسلامی نقود (سکوں) کی ایجاد میں آپ کا کیا کردار رہا ، وغیرہ وغیرہ۔عدالتی نظام کو ترقی دینے میں آپ کا کتنا عظیم کردار ہے۔ قاضیوں اور ججوں کے پاس آپ نے کون سے اہم خطوط بھیجے، قاضیوں کو کہاں اور کیسے متعین کیا، ان کے درجات اور اوصاف کے ساتھ ان کی ذمہ داریاں کیا ہوں، منصفانہ احکامات میں کن بنیادوں اور کن دلائل پر اعتماد کیا جائے، ان تمام گوشوں کو میں نے خوب واضح کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ عدالتی نظام میں آپ کا کیا اجتہاد رہا، مثلاً اگر کوئی شخص ملک اور اسٹیٹ کی جعلی مہریں بنوا لے یا بیت المال سے چوری کرلے، یا ایک آدمی زنا کی حرمت سے ناواقف ہے اور زنا کر بیٹھا یا اس طرح کے دیگر فقہی اور عدالتی احکامات ہیں تو ان میں آپ نے کیسے اجتہاد کیا۔
گورنروں کے ساتھ برتاؤ اور تعامل میں فاروقی فقہ کو بیان کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ آپ کے دور میں اسلامی مملکت میں کتنی ریاستیں بنیں، کون کہاں کا گورنر ہوا، گورنروںکی تقرری میں آپ کے اصول و ضوابط اور شرائط کیا تھیں، آپ کے گورنروں کی کیا صفات تھیں، ان کے حقوق اور ان کی ذمہ داریاں کیا تھیں، آپ نے گورنروں کا کیسے احتساب و نگرانی کی، گورنروں کے بارے میں عوام کی شکایتوں سے متعلق آپ کا کیا برتاؤ رہا۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو آپ کے معزول کیے جانے کا واقعہ بیان کیا اور پہلی و دوسری معزولی کو واضح کیا۔ معزولی کے اسباب کیا تھے، ان کی آخری معزولی کی خبر سن کر اسلامی معاشرہ نے اس فیصلہ پر کیا رخ اختیار کیا اور معزولی کی قرار داد پاکر خود سیّدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کس اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیا اور بستر مرگ پر عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں آپ نے کیا کہا، ان تمام چیزوں کو میں نے ضبط کیا ہے۔
آپ کے دور کی فتوحات، مثلاً فتح عراق، ایران ، شام، مصر اور لیبیا وغیرہ کی تاریخی حیثیت میں نے واضح کی ہے، ان فتوحات میں درس و عبرت کی باتوں اور فوائد و سننِ الٰہی کا تذکرہ کیا ہے۔ عمرفاروق رضی اللہ عنہ اور آپ کے جرنیلوں کے درمیان جن خطوط کا تبادلہ ہوا اس پر بھی روشنی ڈالی ہے اور پھر اس کی روشنی میں قوموں کی قیادت، مملکتوں کے قیام، معاشروں کی تربیت، قائدین کی صحیح رہنمائی اور جنگی فنون کے اصول و ضوابط کو مرتب کیا ہے۔
آپ کی طرف سے گورنروں کو بھیجے جانے والے خطوط کو سامنے رکھ کر اللہ کے حقوق کی نشاندہی کی ہے، جیسے دشمن کے غالب آجانے پر صبر سے کام لیں، جہاد کا مقصد صرف اللہ کے دین کی تائید ہو، امانت داری کا پورا پاس و لحاظ ہو، اللہ کے دین کی مدد میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہو اور جرنیلوں و گورنروں کے حقوق کی بھی نشاندہی کی ہے، جیسے ان پر اپنے حکام کی اطاعت اور ان کی تابع داری ضروری ہے، نیز فوجیوں کے حقوق ہیں، وہ یہ کہ ایک ایک کرکے ان کی خبر گیری کرنا، ان کی ضرورتوں کو محسوس کرنا، ان کے ساتھ نرمی کرنا اور ان کو پامردی کے ساتھ جنگ پر ابھارنا… الخ۔
میں نے یہ بحث چھیڑی ہے کہ آپ کا سلاطین و ملوک کے ساتھ کیسا تعلق تھا، آپ کے دور کی فتوحات کے کیا نتائج رہے، نیز یہ کہ آپ کی زندگی کے آخری ایام کیسے تھے اور آپ نے اپنی موت کی قربت کو کیسے بھانپ لیا