کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 35
کلام تین ہزار درہم میں خرید لیا جو مسلمانوں کی ہتک عزت پر مشتمل تھا۔ یہاں تک کہ وہ شاعر یہ کہنے پر مجبور ہوگیا: وأخذت أطراف الکلام فلم تدع شتمًا یضر ولا مدیحًا ینفع ’’آپ نے (میرے شاعرانہ) کلام کی نوک پلک تک کو خرید لیا، آپ نے تکلیف دینے والی کوئی گالی نہیں چھوڑی اور نہ کوئی مدح سرائی کہ جو کسی کو نفع پہنچائے۔‘‘ ومنعتنی عرض البخیل فلم یخف شتمی فأصبح آمنا لا یفزع ’’آپ نے مجھ سے بخیل کی عزت کو محفوظ کرلیا، لہٰذا اب اسے میری ہجو کا کوئی خوف نہیں وہ تو اب بڑے امن میں ہے، ذرا بھی گھبراتا نہیں۔‘‘ اسی طرح اس کتاب میں میں نے آپ کے دور کی آبادیاتی ترقی اور وقتی بحران سے نمٹنے کا تذکرہ کیا ہے۔ گزرگاہوں اور خشکی و سمندری وسائل، نقل اور سڑکوں اور راستوں نیز فوجی چھاؤنیوں اور تمدنی مراکز کے قیام کے سلسلہ میں آپ کے شدت اہتمام کو ذکر کیا ہے۔ میں نے اس حقیقت پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ آپ کے زمانے میں بصرہ، کوفہ، فسطاط اور سیرت جیسے بڑے بڑے شہر کیسے آباد ہوئے اور جب آپ نے ان شہروں کو بسایا تو کن عسکری اور اقتصادی پہلوؤں کو مدنظر رکھا،’’ عام الرمادۃ‘‘[1] میں ’’قحط سالی‘‘ کے بحران سے نمٹنے کے لیے آپ نے کون سا اسلوب اختیار کیا اور کیسے آپ نے خود کو لوگوں کے سامنے ایک نمونہ کی شکل میں پیش کیا۔ اس سال پناہ گزینوں کے لیے آپ نے کیسے خیمے تیار کرائے، اللہ تعالیٰ سے اور پھر مختلف صوبوں سے کیسے مدد طلب کی، نماز استسقاء کا اہتمام اور اس سال کے بعض فقہی اجتہادات، مثلاً چوری پر حد نافذ نہ کرنا اور زکوٰۃ کی ادائیگی میں تاخیر کو قبول کرلینا وغیرہ مباحث کو میں نے حتی الامکان واضح کیا ہے۔ اس سال کی طرف بھی اشارہ کیا ہے جس میں شام کے اندر طاعون کی بیماری پھیلی اور اس وباء کے متعلق آپ کا کیا نظریہ تھا جس کی زد میں آکر شام میں اسلامی فوج کے کبار جرنیل صحابہ وفات پاگئے۔ اس بیماری کی وجہ سے بیس ہزار سے زائد صحابہ جاں بحق ہوئے، پیمانے گڈمڈ ہوگئے، میراثیں ضائع ہوگئیں، ان حالات میں آپ شام گئے، وہاں آپ نے لوگوں کے لیے وظیفہ مقرر کیا اور موسم سرما و گرما کے وظیفوں کی تحدید فرمائی، شام کی سرحدوں اور فوجی چھاؤنیوں کو محفوظ کیا، گورنروں کو متعین کیا، جرنیلوں، فوجیوں اور عوام کو ذمہ داریاں سونپیں، فوت شدگان کا مال ان کے ورثاء میں تقسیم کیا۔ میں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ مالیاتی اور عدالتی نظام کو ترقی دینے میں آپ کا کتنا اہم کردار ہے اور یہ کہ آپ کے دور میں ملکی آمدنی کے ذرائع کیا تھے، مثلاً زکوٰۃ، جزیہ، خراج، عشر، فے، مال غنیمت وغیرہ۔ آپ نے مسلمانوں کے لیے بیت المال قائم کیا اور مردم شماری وغیرہ کے دفتر تیار کروائے، نیز یہ کہ آپ کے دور میں
[1] قحط کا یہ سال سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ۱۸ ہجری میں آیا تھا اور اس میں بہت ہلاکت اور تباہی ہوئی تھی۔