کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 349
’’غابقہ سے پہلے صبح کی، اور شام کے سیاہ پہاڑوں کے دامن میں شام کی۔‘‘ ألا فاعلم خراش بأن خیر المہاجر بعد ہجرتہ زہید ’’خراش کو جان لینا چاہیے کہ ہجرت کے بعد مہاجر کی خبر نہیں مل رہی ہے۔‘‘ رأیتک وابتغاء البر دونی کمخضوب اللبان ولا یصید[1] ’’تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ مجھے چھوڑ کر نیکی کی تلاش ایسے ہی ہے جیسے گوند لگا ہوا کانپا جو شکار نہ پھنسا سکے۔‘‘ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ ان اشعار سے کافی متاثر ہوئے اور خراش کو اس کے باپ کے پاس واپس چلے جانے کا حکم دے دیا، اور پھر یہ عام فرمان جاری رکھا کہ ’’جس کے بوڑھے والدین زندہ ہوں وہ ان کی اجازت کے بغیر جہاد پر نہ جائے۔‘‘ [2] بہرحال ان واقعات میں ہم ملاحظہ کررہے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ اشعار سے کس درجہ متاثر ہوتے تھے، اور شدت تاثیر کے نتیجہ میں کس قدر رونے لگتے تھے۔ حالانکہ آپ وہی فاروق ہیں جو سختی میں منفرد تھے، بہرحال نرمی اور سختی کا یہ امتزاج بتاتا ہے کہ آپ بہت ذکی الحس تھے اور انسانی دکھ درد کو خوب محسوس کرتے تھے۔ مجبور باپوں کے غم میں شریک ہوتے اور ان کے لیے ان کے بیٹوں کی ضرورت کا احساس کرتے، صرف انہی کے ساتھ ہی نہیں بلکہ ہر وہ انسان جو مظلوم یا مجبور نظر آتا آپ اس کی مصیبت میں شریک ہوتے، اور یہ سب آپ کے پختہ وکامل احساس وشعور کا نتیجہ تھا، جیسے کہ ہجویہ اشعار کے بارے میں آپ کا مؤقف گزر چکا ہے۔ ۴: سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ بحیثیت ناقد ادب عربی: عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر سختی سے عمل کرنے والے تھے، یہاں تک کہ آپ اپنے ادبی نظریہ اور شعر و شاعر پر حکم لگانے میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کی کوشش کرتے تھے۔ چنانچہ آپ سے بہت سارے ادبی نصوص کے بارے میں تنقیدی احکام وخیالات پائے جاتے ہیں، اور ادبی نصوص پر آپ کے تنقیدی جائزہ کا تعلق اس دور سے ہے جب کہ آپ خلیفہ تھے، یعنی آپ کی زندگی کا آخری دس سالہ دور ادبی نصوص پر آپ کا تنقیدی جائزہ مجموعی طور پر ہمیں یہ تصور دیتا ہے کہ جو ادبی نصوص وآثار آپ کے ادیبانہ نقطۂ نظر سے درجہ کمال کو پہنچے ہوئے ہوتے آپ ان نصوص کو کتنا اونچا مقام دیتے، اور کتنی اس کی عزت کرتے تھے۔ درحقیقت
[1] أدب صدر الإسلام، ص: ۹۰