کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 347
’’اور نہ نیند سے بیدار ہونے کے بعد غم بھری ہلکی آواز میں کلاب کو پکارنے والی ماں کو۔‘‘ لکسب المال أو طلب المعالی ولکنی رجوت بہ الثوابا ’’مال کمانے کے لیے یا ناموری کے لیے نہیں چھوڑا تھا، بلکہ اس سے میرا مقصد ثواب حاصل کرنا تھا۔‘‘ کلاب اچھے مسلمانوں میں سے تھے، وہ اپنے والدین ہی کے پاس رہے یہاں تک کہ دونوں فوت ہوگئے۔[1] اسی سے ملتا جلتا ایک دوسرا واقعہ بھی ہے وہ یہ کہ معروف شاعر شیبان بن مخبل سعدی نے ہجرت کی اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے ساتھ فارس والوں سے جنگ کرنے کے لیے چلا گیا۔ اس پر اس کے والد مخبل بہت زیادہ گھبرا گئے، کیونکہ وہ کمزور اور بوڑھے ہوچکے تھے، وہ جدائی پر صبر نہ کرسکے اور یہ قصیدہ کہا: أیہلکنی شیبان فی کل لیلۃ لقلبی من خوف الفراق وجیب ’’کیا شیبان ہر رات مجھے ایسے ہی ہلاک کرتا رہے گا، یقین جانو جدائی کے خوف وغم سے میرا دل دھڑک رہا ہے۔‘‘ فإنی حنت ظہری خطوب ألا تری أری الشخص کالشخصین وہو قریب ’’کیا تو دیکھتا نہیں کہ نامساعد حالات نے میری کمر جھکا دی ہے، ایک ہی آدمی مجھے دو دکھائی دیتے ہیں، حالانکہ وہ میرے قریب ہی ہوتا ہے۔‘‘ ویخبر شیبان أن لن یعقّنی تعق إذا فارقتنی وتحوب ’’شیبان مجھ سے کہتا تھا کہ وہ میری نافرمانی ہرگز نہ کرے گا، (لیکن اے شیبان) جب تو مجھ سے بچھڑ گیا، تو نافرمان بھی ہوا اور گنہگار بھی۔‘‘ فلا تدخلن الدھر قبرک حوبۃ یقوم بہا یومًا علیک حسیب ’’تو اپنی قبر میں گناہ لے کر کبھی نہ جانا کہ کسی دن سخت حساب لینے والا ان گناہوں کے بارے میں تجھ سے باز پرس کرے۔‘‘
[1] الأدب الإسلامی، د/ نایف معروف، ص: ۱۸۰