کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 331
اور آپ کا قول ہے: ’’نحو کو اسی طرح سیکھو جس طرح اسلام کے سنن وفرائض کو سیکھتے ہو۔‘‘ [1] اور فرمایا: ’’تم قرآن کا اعراب اسی طرح سیکھو جس طرح اس کے حفظ کو سیکھتے ہو۔‘‘ [2] نیز فرمایا: ’’سب سے خراب تحریر وہ ہے جو لمبی ترچھی اور جلدی جلدی لکھی جائے، سب سے خراب قرائت وہ ہے جو اتنی تیزی سے کی جائے کہ کچھ سمجھ میں نہ آئے، اور سب سے خوش خط تحریر وہ ہے جو خوب واضح ہو۔‘‘ [3] ابن جوزی نے بھی اسی طرح کا واقعہ لکھا ہے کہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے کاتب نے عمر رضی اللہ عنہ کے پاس خط لکھا، تو اس نے ’’بسم اللہ‘‘ کا سین چھوڑ دیا، عمر رضی اللہ عنہ نے عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ ’’اسے کوڑے لگاؤ۔‘‘ چنانچہ عمرو رضی اللہ عنہ نے اسے کوڑے مارے، کسی نے کاتب سے پوچھا کہ کس وجہ سے تم مارے گئے؟ اس نے کہا: ’’سین‘‘ چھوڑنے کی وجہ سے۔ [4] سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہر چیز کو اتقان ومضبوطی سے انجام دینے کے حریص تھے، اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی بھی چیز جس کا تعلق سیاست، اقتصاد، فوج، تعلیم، ادب یا ان کے علاوہ کوئی اور چیز جو امت کی بقا اس کی عزت، شرافت، بزرگی، قوت اور تہذیب وتمدن سے مربوط رہی، آپ نے اس میں جدت پیدا کی، اور اس کا خاص اہتمام کیا۔ آپ کی سیاست کی شمولیت وکمال، اور امت مسلمہ کی بہترین توجہ ونگرانی کی دلیل یہ ہے کہ جہاں سختی کی ضرورت تھی وہاں آپ نے سختی کی اور جہاں نرمی کی ضرورت تھی وہاں نرمی کی، اور اس بات کی کوشش کی کہ جس امت کا دستور اساس قرآنِ کریم ہے جو واضح عربی زبان میں نازل ہوا، اس امت کے حکام وافسران فصیح عربی زبان میں خط وکتابت کیا کریں۔ [5] جن فوجی اداروں کی تحریک پر عراق، ایران، شام، مصر اور مغرب کے ممالک فتح ہوئے درحقیقت ان کے پیچھے ایسی منفرد علمی، فقہی، اور دعوتی جماعتوں کا ہاتھ تھا، جنہوں نے مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تربیت پائی تھی، عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان کی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کیا، ان کی بہترین رہنمائی کی، اور وہ جس جگہ کے لیے مناسب تھے، وہاں انہیں ذمہ داری عطا کی۔ اسی بہترین استعمال واستفادہ کے نتیجہ میں ان جماعتوں نے علمی وفقہی
[1] نظام الحکومۃ الاسلامیۃ: ۲/ ۲۶۲ [2] السلطۃ التنفیذیۃ: ۲/ ۷۶۸ [3] اشہر مشاہیر الاسلام: ۲/ ۵۴۰، ۵۴۱ [4] معجم الادباء: ۱/ ۱۹