کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 329
عمر فاروق رضی اللہ عنہ دعوت الی اللہ کا کام کرنے والوں اور مدرسین کی مدد کرتے تھے اور انہیں مفتوحہ علاقوں میں بھیجتے تھے۔ آپ نے واضح کردیا تھا کہ حکمران اور امراء حضرات کو دوسرے علاقوں میں بھیجنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ لوگوں کو دین کی تعلیم دیں۔ آپ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: اے اللہ! میں شہروں کے امراء پر تجھ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کو وہاں کی رعایا میں عدل وانصاف قائم کرنے اور لوگوں کو دین سکھانے نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سکھانے کے لیے بھیجا ہے، اور اس لیے تاکہ ان کے اموال ان میں تقسیم کریں۔ [1] عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے علماء ومفتیان کے لیے مسلمانوں کے بیت المال سے تنخواہیں مقرر کیں تاکہ تعلیم و افتاء کی ذمہ داری کو وہ لوگ بحسن وخوبی انجام دے سکیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو تعلیم دینے والے مدرسین کی تنخواہوں کی ذمہ داری بھی اٹھائی، مدینہ میں تین مدرس بچوں کو پڑھاتے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ ان میں سے ہر ایک کو ہر مہینے میں پندرہ (۱۵) درہم تنخواہ دیتے تھے۔ [2] تعلیم کی نشر واشاعت خلیفہ راشد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے اہم اہداف میں شامل تھی، اسی لیے آپ نے گاؤں گاؤں اور شہر شہر دین کی تعلیم دینے والوں کو بھیجا، اور اس سلسلے میں صرف حکام وامراء کی کوششوں پر بس نہ کیا بلکہ مدینہ میں رہنے والے علماء کو بھیج کر ان کو قوت پہنچائی، مدینہ سے جانے والے علماء آپ کی نصیحتوں اور مشوروں کے حامل ہوتے تھے۔ اس عظیم مقصد کے لیے آپ نے دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مدینہ سے مختلف شہروں میں بھیجا، انہی میں سے عبداللہ بن مغفل مزنی رضی اللہ عنہ تھے، جنہیں بصرہ والوں کا معلم دین بنا کر بھیجا۔ [3] اسی طرح عمران بن حصین الخزاعی رضی اللہ عنہ جو فقہائے صحابہ میں سے تھے، ان کو بھی بصرہ والوں کی دینی تعلیم وتربیت کے لیے بھیجا۔ [4] ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دیگر شہروں کے مقابلے میں شام کی تعلیمی مرکزیت کافی اہمیت کی حامل تھی، اس لیے عمر رضی اللہ عنہ نے جب شہروں کو فتح کیا تو ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس ایک خط لکھا، اس وقت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بصرہ کے والی تھے، اس خط میں حکم دیا تھا کہ جمعہ کے لیے ایک مسجد خاص کرلی جائے، اور قبائل کے لیے بھی الگ الگ مسجدیں موجود رہیں، جب جمعہ کا دن آئے تو جامع مسجد میں سب لوگ جمعہ کے لیے حاضر ہوں۔ آپ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے پاس بھی یہی حکم بھیج دیا اس وقت وہ کوفہ کے امیر تھے، نیز عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس جب کہ وہ مصر کے گورنر تھے یہی حکم بھیجا اور شام کے فوجی کمانڈروں کے نام لکھا کہ شہروں کو چھوڑ کر دیہاتوں کی طرف مت جاؤ، ہر شہر میں صرف ایک مسجد بنا لو، مصر، بصرہ، اور کوفہ والوں کی طرح ہر قبیلے کی الگ الگ مسجدیں نہ ہوں۔ [5]
[1] تفسیر التابعین: ۱/ ۵۲۶ تا ۵۲۸ [2] تفسیر التابعین: ۱/ ۵۴۰، ۵۴۱ [3] حسن المحاضرۃ: ۱/ ۲۹۶ [4] الادارۃ العسکریۃ فی الدولۃ الاسلامیۃ: ۲/ ۷۱۲ [5] الادارۃ العسکریۃ فی الدولۃ الاسلامیۃ: ۲/ ۷۱۲