کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 326
شہادت مطلوب ہے، میں انہیں نہیں روک سکتا۔ تو میں نے کہا: اللہ کی قسم! شہادت کا طالب اپنے بستر پر اور اپنے گھر میں شہادت سے سرفراز ہوسکتا ہے۔ [1] لیکن ایسا لگتا ہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے شاید بعد میں اپنی رائے بدل دی تھی، کیونکہ انہوں نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو شام والوں کی تعلیم کے لیے وہاں روانہ کیا، اور وہیں انہیں سکونت عطا کی۔ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے شام جانے سے وہاں کے حالات پر بہت اثر پڑا، کیونکہ وہاں پہنچ کر آپ نے علم وفقہ کی خوب نشر واشاعت کی، اور وہاں کے موافق فقہی مزاج تیار کیا۔ ابومسلم خولانی کا کہنا ہے کہ میں ’’حمص‘‘ کی مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ وہاں تیس (۳۰) بوڑھے کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم موجود ہیں۔ ان میں ایک ایسا نوجوان بھی تھا جس کی دونوں آنکھیں سرمگیں، اور دانت نہایت چمک دار تھے، اس پر پُر وقار خاموشی تھی، اگر اصحاب رسول میں کسی مسئلہ میں حجت اور بحث ومباحثہ ہوجاتا تو اس کی طرف متوجہ ہو کر اس سے پوچھتے، یہ دیکھ کر میں نے اپنے ایک ساتھی سے کہا: یہ کون ہیں؟ اس نے بتایا کہ یہ معاذ بن جبل ہیں۔ [2] معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ حصول علم پر رغبت دلاتے ہوئے فرماتے تھے: ’’علم حاصل کرو، اس لیے کہ اخلاص سے علم حاصل کرنا خشیت الٰہی کی علامت ہے۔ اس کی طلب وجستجو عبادت ہے، اس کا حفظ ومذاکرہ تسبیح ہے، اس کے بارے میں تحقیق کرنا جہاد ہے، جو علم نہ جانتا ہو اسے علم سکھانا صدقہ ہے اور اسے اس کے حق داروں پر خرچ کرنا اطاعت الٰہی ہے، اس لیے کہ وہ حلال وحرام کی معرفت کی نشانی ہے، جنت والوں کا منارہ ہے، تنہائی کی وحشت میں مونس وغم خوار ہے، سفر میں بہترین دوست ہے، خلوت میں ہم کلام ساتھی ہے، رنج وغم ہو کہ راحت ومسرت، دونوں حالتوں میں بہترین رہنما ہے، دشمن کے خلاف ہتھیار ہے، مقتدر ہستیوں کے نزدیک دین ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے اقوام کو سر بلندی عطا کرتا ہے اور بھلائی میں انہیں ایسا قائد اور امام بناتا ہے کہ جن کے نقوش کی تقلید کی جاتی ہے، انہی کے کارناموں کی پیروی کی جاتی ہے اور انہی کی رائے وفیصلہ کی انتہا ہوتی ہے۔‘‘ [3] معاذ بن جبل شام میں رہ کر لوگوں کو دینی تعلیم دیتے رہے، یہاں تک کہ طاعون عمواس کے آپ بھی شکار ہوگئے اور آپ کے شاگرد آپ کی نازک حالت دیکھ کر رونے لگے، آپ نے ان سے پوچھا: تم کیوں روتے ہو؟ انہوں نے کہا: اس علم پر روتے ہیں جو آپ کی وفات کے بعد ہم سے ختم ہوجائے گا۔ آپ نے فرمایا: ’’بے شک
[1] سیر اعلام النبلاء: ۱/ ۴۵۰ [2] الانصار فی العصر الراشدی، ص: ۲۸۵ [3] تہذیب الکمال، المزی: ۲۸/ ۱۱۳۔ بحوالہ: الانصار فی العصر الراشدی [4] الطبقات، ابن سعد: ۱/ ۴۲۶ [5] الانصار فی العصر الراشدی، ص: ۲۸۵ [6] سیر اعلام النبلاء: ۱/ ۴۵۲