کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 322
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے بہت سارے شاگرد تیار ہوئے جنہوں نے فقہ، علم اور زہد وتقویٰ میں شہرت پائی۔ انہی شاگردوں میں سے علقمہ بن قیس، مسروق بن الاجدع، عبیدہ سلمانی، ابومیسرہ بن شرحبیل، اسود بن یزید، حارث جعفی اور مرہ ہمدانی وغیرہ ہیں۔ [1] ۵: شامی درس گاہ: ملک شام فتح ہونے کے بعد یزید بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس ایک خط تحریر کیا اس کا مضمون یہ تھا: ’’شام والوں کی آبادی بڑھ گئی ہے، شہر تنگ پڑگئے ہیں، اور انہیں ایک معلم قرآن وعالم دین کی ضرورت ہے، لہٰذا اے امیر المومنین! آپ ایسے لوگوں کو بھیج کر میری مدد کیجیے۔‘‘ چناں چہ عمر رضی اللہ عنہ نے معاذ بن جبل، عبادہ بن صامت، اور ابودرداء رضی اللہ عنہم کو بلایا اور انہیں اس کام کے لیے بھیج دیا اور نصیحت کی کہ اپنے درس وتدریس کا آغاز ’’حمص‘‘ سے کرو، کیونکہ وہاں مختلف طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں، وہاں کچھ لوگ بہت تیزی سے علم سیکھنے والے ہیں، جب تم ایسا دیکھو تو اس طرح کے لوگوں کی ایک جماعت کو تعلیم دو اور جب تم ان سے مطمئن ہوجاؤ تو تم میں سے کوئی ایک ان کے پاس رک جائے اور ایک صاحب دمشق چلا جائے، جب کہ دوسرا فلسطین۔ بہرحال وہ لوگ ’’حمص‘‘ آئے، وہاں قیام کیا، اور جب ایک جماعت کا علمی مقام دیکھ کر مطمئن ہوگئے تو وہاں عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ مقیم ہوگئے، پھر ابودرداء رضی اللہ عنہ دمشق اور معاذ رضی اللہ عنہ فلسطین کی طرف روانہ ہوگئے۔ [2] مفتوحہ علاقوں میں عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جن علمی مدارس کی بنیاد رکھی تھی وہ مدارس لوگوں کی تعلیم وتربیت میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ شامی درس گاہ کی ذمہ داری معاذ، ابودرداء، اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہم وغیرہ صحابہ کے کندھوں پر تھی۔ دمشق کی مسجد میں ابودرداء رضی اللہ عنہ کا بہت بڑا علمی حلقہ ہوتا تھا، اس میں ۱۶۰۰ سے زائد لوگ حاضر ہوتے تھے، وہ دس دس آیتیں پڑھتے تھے اور ایک دوسرے سے آگے بڑھ نکلنے کی کوشش کرتے تھے اور ابودرداء کھڑے ہو کر قراء ات اور لہجوں کے بارے میں فتویٰ دیتے تھے۔[3] ابودرداء رضی اللہ عنہ شام اور دمشق میں دیگر صحابہ کے مقابلہ میں سب سے زیادہ احادیث کے جاننے والے تھے، امام ذہبی رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ابودرداء رضی اللہ عنہ شام والوں کے سب سے بڑے عالم، اور دمشق والوں کے سب سے بڑے مدرس، فقیہ اور قاضی مانے جاتے تھے۔ [4] آپ چند گنے چنے ماہرین قراء ت میں شمار کیے جاتے تھے۔ [5]
[1] تفسیر التابعین: ۱/ ۴۶۲ [2] العلم لابی حنیفۃ، ص: ۱۲۳۔ تفسیر التابعین: ۱/ ۴۶۳ [3] صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۵۰۰۰ [4] صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۳۷۵۸۔ مسلم: ۲۴۶۴ [5] المستدرک علی الصحیحین، حاکم نیسابوری: ۲/ ۲۲۷۔ امام حاکم نے اس کی تصحیح کی ہے، اور امام ذہبی نے اس کی موافقت کی ہے۔