کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 321
کوفہ کی درس گاہ سیّدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے کافی متاثر تھی اور اپنے استاذ کی اقتدا وپیروی کرنے میں دیگر تمام درس گاہوں سے منفرد تھی، یہاں تک کہ آپ کی وفات کے بعد بھی آپ کے شاگرد آپ کی اقتدا پر جمے رہے، اور ایک لمبے زمانہ تک کوفہ آپ کے علم وعمل پر قائم رہا۔ [1] عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فقہ فاروقی سے بہت متاثر تھے، ان کی بات کے سامنے اپنی بات کو چھوڑ دیتے، اور کہتے تھے: اگر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا علم ایک پلڑے میں اور پوری دنیا والوں کا علم دوسرے پلڑے میں ہو تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا علم بھاری پڑ جائے گا۔ [2] سیّدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے صحابہ کے درمیان ایک نمایاں مقام حاصل کیا اور علم قرائت میں سب پر سبقت لے گئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے ستر (۷۰) سے زیادہ سورتیں یاد کیں۔ شقیق بن سلمہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ہمارے درمیان خطبہ دیا اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے (۷۰) سے زیادہ سورتیں سیکھیں، واللہ! اصحابِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم بخوبی جانتے تھے کہ میں ان میں سب سے زیادہ قرآن کا عالم تھا، حالانکہ میں ان میں سب سے اچھا نہیں۔ [3] مسروق رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کے سامنے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا ذکر آیا، تو انہوں نے کہا: وہ ایسے آدمی ہیں کہ جب سے ان کے بارے میں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان سنا، برابر ان سے محبت کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد تھا: چار آدمیوں سے قرآن پڑھنا سیکھو، عبداللہ بن مسعود … سب سے پہلے ان کا نام ذکر کیا … ابوحذیفہ کے غلام سالم، ابی بن کعب اور معاذ بن جبل سے۔ [4] عمر فاروق رضی اللہ عنہ فن تجوید اور تدریس پر ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے علمی عبور کو اچھی طرح پہچانتے تھے۔ علقمہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب کے پاس ایک جانا پہچانا آدمی آیا، اس نے کہا: امیر المومنین! میں کوفہ سے آرہا ہوں، میں نے وہاں ایک ایسے آدمی کو دیکھا ہے جو اپنے حفظ سے قرآن لکھوا رہا تھا۔ راوی کا کہنا ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر بہت ناراض ہوگئے، ایسا لگتا تھا کہ ابھی آپ بے قابو ہوجائیں گے۔ پھر آپ نے فرمایا: تیرا برا ہو، وہ کون ہے؟ اس نے کہا: وہ عبداللہ بن مسعود ہیں۔ آپ ناراض ہوتے اور پھر ٹھنڈے ہوجاتے۔ یہاں تک کہ آپ کی پہلے جیسی حالت ہوگئی۔ پھر آپ نے فرمایا: میرے علم کے مطابق مسلمانوں میں اب کوئی ایسا نہیں بچا ہے جو ان سے زیادہ اس کا حق دار ہو۔ [5]
[1] طبقات ابن سعد: ۳/۱۵۶۔ الحلیۃ ۱/۱۲۹۔ [2] تاریخ المدینۃ النبویۃ: ۲/ ۷۷۰۔ موسوعۃ فقہ عمر، قلعجی، ص: ۶۵۹ [3] الانصار فی العصر الراشدی، ص: ۲۶۸ [4] الانصار فی العصر الراشدی، ص: ۲۶۰ [5] طبقات ابن سعد: ۳/ ۱۵۶۔ الحلیۃ: ۱/ ۱۲۹