کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 32
وہ دور نتائج اور نصیحتوں کو پیش کرتا ہے، عبرتوں کو آسان کرتا ہے اور افکار میں پختگی لاتا ہے، مبلغین، علماء، مشائخ اور امت کے دیگر افراد اس تاریخ میں حکمت کی وہ باتیں پائیں گے جو نبوت کے طرز پر نئی مسلمان نسل کو تیار کرنے اور ان کی تربیت کرنے پر کافی معاون ثابت ہوں گی اور پھر سب کے سب خلافت راشدہ کے نشانِ راہ اور اس کے قائدین اور نوجوانوں کی صفات و خصوصیات اور اس کے زوال کے اسباب کو جان لیں گے۔ آپ کے ہاتھوں میں خلفائے راشدین کی سیرت طیبہ سے متعلق یہ دوسری کتاب ہے جو سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے حیات و کارناموں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔ آپ دوسرے خلیفۂ راشد ہیں۔ سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد صحابہ میں سب سے افضل تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں رغبت دلائی ہے اور حکم دیا ہے کہ ہم ان کے طریقوںکی
پیروی کریں اور ان کے راستہ پر چلیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَہْدِیِّیْنَ مِنْ بَعْدِیْ۔)) [1]
’’میری اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو۔‘‘
پس سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ انبیاء و مرسلین اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد نیکوں میں سب سے بہتر ہیں اور ان دونوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
((اِقْتَدُوْا بِاللَّذَیْنِ مِنْ بَعْدِیْ أَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ۔))[2]
’’میرے بعد ابوبکر و عمر کی اقتداء کرنا۔‘‘
((لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْمَنْ قَبْلَکُمْ مِّنَ الْاُمَمِ ، مُحَدَّثُوْنَ فَإِنَّ یَّکُنْ فِیْ أُمَّتِیْ أَحَدٌ فَإِنَّہُ عُمَرُ۔)) [3]
’’تم سے پہلے کی تمام امتوں میں الہام یافتہ شخصیتیں ہوتی تھیں، پس اگر میری امت میں کوئی ایسا ہے تو وہ عمر ہیں۔‘‘
بے شمار احادیث اور مشہور روایات عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فضائل میں وارد ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
((رَأَیْتُ کَأَنِّیْ أَنْزِعُ بِدَلْوٍ بَکْرَۃٍ عَلٰی قَلِیْبٍ فَجَائَ أَبُوْبَکْرٍ فَنَزَعَ ذَنُوْبًا أَوْ ذَنُوْبَیْنِ نَزْعًا ضَعِیْفًا وَاللّٰہُ یَغْفِرُلَہُ ثُمَّ جَائَ عُمَرُ فَاسْتَسْقٰی فَاسْتَحَالَتْ غَرْبًا، فَلَمْ
أَرَعَبْقَرِیًّا یَفْرِیْ فَرْیَہٗ حَتّٰی رَوِیَ النَّاسُ وَضَرَبُوْا الْعَطَنَ۔)) [4]
’’میں نے (خواب میں) دیکھا کہ ایک کنویں پر پڑے ہوئے ڈول سے پانی کھینچ رہا ہوں۔ پھر ابوبکر آئے اور انہوں نے بھی ایک یا دو ڈول (پانی) ناتوانی کے ساتھ نکالے، اللہ ان کی بخشش کرے، پھر عمر بن خطاب آئے اور انہوں نے پانی کھینچا تو وہ ڈول بھر کر بڑا ہوگیا۔ میں نے ایسا زبردست کام کرنے والا نہیں دیکھا، یہاں تک کہ لوگ سیراب ہوگئے اور اپنے اونٹوں کو پانی پلا کر آرام کی جگہ میں بٹھایا۔‘‘
سیّدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون ہیں؟ آپ نے فرمایا: عائشہ۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مردوں میں سے(کون ہے)؟ آپ نے فرمایا: ان کے والد۔ میں نے کہا: پھر کون؟ آپ نے فرمایا: عمر بن خطاب۔ پھر آپ نے اور لوگوں کا
[1] سنن ابی داؤد:۴/۲۰۱، الترمذی:۵/۴۴ حسن صحیح۔
[2] صحیح سنن الترمذی/ البانی (۳/۲۰۰)
[3] البخاری: ۳۶۸۹، مسلم:۲۳۹۸۔
[4] صحیح مسلم، حدیث نمبر:۲۳۹۳۔