کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 316
لوگوں کی تبلیغ میں استعمال نہ کرتے رہے ہوں۔ جب سلام پھیر کر نماز سے فارغ ہوتے تو لوگوں کی طرف رخ کرکے بیٹھ جاتے، انہیں تعلیم سکھاتے اور قرآن پڑھنے کا طریقہ بتاتے۔ ابن شوذب کا قول ہے کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ جب صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تو صفوں میں گھوم گھوم کر ایک ایک آدمی کو قرآن پڑھاتے۔[1]آپ صحابہ کے درمیان شیریں آواز اور بہترین قرآئت والے مشہور تھے۔ جب لوگ آپ کو قرآن پڑھتے ہوئے سنتے تو آپ کے پاس جمع ہوجاتے اور جب عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ ہوتے تو عمر رضی اللہ عنہ ان سے کہتے کہ قرآن کا کوئی حصہ پڑھ کر سناؤ۔ [2] اللہ تعالیٰ نے آپ کو توفیق دی کہ مسلمانوں کو تعلیم دیں اور انہوں نے کسی بھی شہر میں، جہاں بھی تشریف لے گئے قرآن کی تعلیم دینے اور اس کی نشر واشاعت میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور اپنے مشن کی کامیابی کے لیے اپنی شیریں اور دل لبھانے والی آواز کا سہارا لیا، لوگ آپ کے گرد اکٹھے ہوگئے، اور بصرہ کی مسجد میں آپ کے پاس طلبہ کا ہجوم ہوگیا۔ آپ نے ان کو ٹولیوں اور حلقوں میں تقسیم کردیا یعنی درجہ بندی کردی، گھوم گھوم کر ان سے قرآن سنتے اور سناتے، اور انہیں قرائت کا صحیح اسلوب وقاعدہ بتاتے۔ [3]قرآن سیکھنا سکھانا ہی آپ کی ساری مشغولیت تھی، سفر وحضر میں اسی کے لیے آپ اپنا بیشتر وقت لگاتے تھے۔ انس بن مالک کا بیان ہے کہ مجھے ابوموسیٰ اشعری نے عمر بن خطاب کے پاس ایک ضرورت سے بھیجا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: جب تم آئے تو اشعری کیا کررہے تھے؟ میں نے بتایا کہ اس حال میں آیا جب کہ وہ لوگوں کو قرآن کی تعلیم دے رہے تھے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ بہت عقل مند اور زیرک ہیں، لیکن تم انہیں یہ مت بتانا۔ [4]صرف اتنا ہی نہیں بلکہ جہاد کے لیے نکلتے ہوئے بھی قرآن کی تعلیم اور تبلیغ کرتے رہتے تھے۔ خطاب بن عبداللہ رقاشی سے روایت ہے کہ میں دریائے دجلہ کے ساحل پر ایک لشکر کے ساتھ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا، نماز کا وقت ہوا تو مؤذن نے ظہر کی نماز کے لیے اذان کہی۔ لوگ وضو کے لیے اٹھے، آپ نے بھی وضو کیا اور ان کو نماز پڑھائی، پھر سب لوگ کئی حلقوں میں بیٹھ گئے۔ جب عصر کا وقت ہوا تو مؤذن نے عصر کی اذان کہی، اس مرتبہ بھی لوگ وضو کے لیے بڑھے، تو آپ نے مؤذن سے کہلوایا کہ وضو صرف اسی آدمی کے لیے ضروری ہے جس کا وضو ٹوٹ گیا ہو۔ آپ کی علمی کاوشوں نے بہترین نتیجہ پیش کیا، اپنے اردگرد حفاظ قرآن اور علماء کی بڑی تعداد دیکھ کر آپ کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچتی تھی، صرف بصرہ میں حفاظ قرآن کی تعداد (۳۰) سے متجاوز تھی۔ ایک موقع پر جب عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عمال سے کہا کہ حفاظ قرآن کے نام لکھ کر ہمارے پاس بھیجو تاکہ آپ ان کی تکریم کریں، اور ان کے عطیات کو بڑھا دیں، تو
[1] تذکرۃ الحفاظ، الذہبی: ۱/ ۲۳ [2] سیر أعلام النبلاء: ۲/ ۳۸۹ [3] أبوموسیٰ الاشعری الصحابی العالم المجاہد، محمد طہماز، ص: ۱۲۱ [4] طبقات ابن سعد: ۴/ ۱۰۷