کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 312
’’جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈر تو تکبر اسے تعصب اور گناہ پر آمادہ کردیتا ہے اس کے لیے جہنم کافی ہے اور وہ انتہائی برا ٹھکانہ ہے۔‘‘ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ (البقرۃ: ۲۰۷) ’’حالانکہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کی رضا مندی کی طلب میں اپنی جان تک گنوا دیتے ہیں اللہ بندوں کے ساتھ بڑا شفیق ہے۔‘‘ تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے قریب بیٹھے ہوئے بعض ساتھیوں سے کہا: دونوں آپس میں لڑ پڑے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی بات سن لی، پوچھا: ابن عباس! تم نے کیا کہا؟ انہوں نے کہا: کچھ نہیں امیر المومنین! آپ نے کہا: نہیں بتاؤ تم نے کیا کہا؟ کہ دونوں آپس میں لڑ پڑے؟ جب ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عمر رضی اللہ عنہ کا یہ اصرار دیکھا تو کہا: میں اس آیت میں دیکھ رہا ہوں کہ ایک شخص کو جب اللہ سے تقویٰ کا حکم دیا جاتا ہے تو وہ تکبر کی وجہ سے تعصب اور گناہ کرنے لگتا ہے، اور ایسے آدمی کو بھی دیکھ رہا ہوں کہ اللہ کی رضا مندی چاہنے کے لیے اپنی جان تک گنوانے کے لیے تیار ہے، اور یہ شخص جو رضا کا طالب ہے وہ متکبر کو اللہ سے تقویٰ کا پابند بنانا چاہتا ہے، لیکن وہ متکبر اس کی نصیحت کو نہیں مانتا ، بلکہ غرور وتکبر کی وجہ سے مزید گناہ کے کام کرنے لگتا ہے اور جب وہ ناصح کی بات نہیں مانتا تو ناصح سوچتا ہے کہ چلو، میں ہی اللہ کے راستہ میں اپنی جان کی تجارت کرتا ہوں، اور پھر وہ لڑ جاتا ہے۔ اس طرح دو لوگ آپس میں جدال وقتال کرنے لگتے ہیں۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا: آفرین آپ کے علم پر، اے ابن عباس! [1] سیّدناعمر رضی اللہ عنہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے جب قرآن کے بارے میں کچھ پوچھتے تو کہتے: غوطہ لگانے والے نے غوطہ لگا دیا، [2] بلکہ اگر عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پیچیدہ مسائل آجاتے تو ابن عباس سے کہتے: اے ابن عباس! ہمارے پاس کچھ پیچیدہ مسائل آگئے ہیں، تم ہی ان جیسے مسائل کو حل کرسکتے ہو، پھر ان کی رائے پر عمل کرتے۔ جب بھی کوئی پیچیدہ مسئلہ آتا تو آپ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے علاوہ کسی کو نہیں بلاتے تھے۔ [3] سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرمایا: میں نے ابن عباس سے زیادہ حاضر جواب، دانا وبینا، ذی علم، اور بردبار کسی کو نہیں دیکھا اور میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ مشکل اوقات میں ابن عباس رضی اللہ عنہما ہی کو بلاتے اور کہتے: ایک پیچیدہ مسئلہ آگیا ہے، پھر ان کے قول سے تجاوز نہ کرتے حالانکہ آپ کے اردگرد
[1] الحلیۃ: ۱/ ۳۱۸۔ تفسیر التابعین: ۱/ ۳۷۶ [2] المستدرک: ۳/ ۵۳۹ حاکم نے اس کی سند کی تصحیح کی ہے اور ذہبی نے اس کی موافقت کی ہے۔ [3] تفسیر التابعین: ۱/ ۳۷۷