کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 311
اعزاز و تکریم سے ان کو آگے بڑھنے اور علم حاصل کرنے کا حوصلہ ملتا، بلکہ دیگر علوم کے ساتھ تفسیر قرآن کے علم میں خوب محنت کرتے۔ عامر شعبی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میرے باپ نے مجھ سے کہا: اے میرے بیٹے! میں دیکھ رہا ہوں کہ امیر المومنین تم کو قریب رکھتے ہیں، تمہارے ساتھ تنہا بھی ہوتے ہیں، اور دیگر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تم سے بھی مشورہ لیتے ہیں، اس لیے تم میری چار باتیں یاد رکھنا: اللہ سے ڈرنا، ان کا کوئی راز فاش نہ کرنا، وہ کبھی تم کو جھوٹا نہ پائیں، ان کے سامنے کسی کی غیبت نہ کرنا۔ [1] سیّدناعمر رضی اللہ عنہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کو اکابر صحابہ کی مجلس میں بھی لے جاتے تھے اور اس کی وجہ یہی تھی کہ آپ نے ان میں قوت فہم، سلامتی فکر اور استنباط کی باریکیوں کو پہچاننے کی صلاحیت کو بخوبی جان لیا تھا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ دیگر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میری بھی رائے معلوم کرتے تھے اور مجھ سے کہتے تھے: تم اس وقت تک کچھ نہ کہو جب تک کہ وہ لوگ اپنی کوئی رائے نہ دے دیں اور جب میں کوئی رائے دیتا تو آپ کہتے: تم سب مل کر مجھے وہ مشورہ نہ دے سکے جو اس نوعمر وناتجربہ کار بچے نے دیا ہے۔ [2] ابن عباس رضی اللہ عنہما کے احترام مجلس و آداب بزرگان کا یہ عالم تھا کہ اگر کسی ایسی مجلس میں ہوتے جس میں ان سے بزرگ لوگ موجود ہوتے تو ان کی اجازت کے بغیر ایک لفظ نہ بولتے۔ عمر رضی اللہ عنہ اس خاموشی کو محسوس کرتے تھے چنانچہ ان کے علم کی ہمت افزائی کرتے، اور انہیں بولنے پر ابھارتے۔ [3] جیسے کہ اس کی مثالیں آیت کریمہ: أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ (البقرۃ:۲۶۶) اور إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللّٰهِ وَالْفَتْحُ (النصر:۱) کی تفسیر میں گزر چکی ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ کی ایک علمی مجلس ہوتی تھی جس میں نوجوانوں کی علمی باتیں سنتے اور انہیں علم سکھاتے تھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما ان نوجوانوں میں آگے آگے رہتے تھے۔ عبدالرحمن بن زید بیان کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ جب اشراق کی نماز سے فارغ ہوتے تو کھجوریں خشک کرنے والے اپنے کھلیان میں جاتے اور قرآن پڑھنے والے نوجوانوں کو بلواتے، ان میں ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی ہوتے۔ راوی کا بیان ہے کہ وہ سب آتے اور دوپہر تک قرآن پڑھتے پڑھاتے اور دوپہر کے وقت آپ گھر واپس لوٹ جاتے۔ ایک مرتبہ وہ سب قرآن پڑھتے ہوئے جب اس آیت سے گزرے: وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللّٰهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ (البقرۃ: ۲۰۶)
[1] الإعلان والتوبیخ لمن ذم التاریخ، ص: ۲۹۲ [2] تفسیر التابعین، د/ محمد الخضری: ۱/ ۳۷۱ [3] تفسیر التابعین، د/ محمد الخضری: ۱/ ۳۷۴۔ ۳۹۵