کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 302
جہاد کے لیے اٹھ کھڑے ہوں تو بہت تھوڑے مسلمان ان سے مالی تعاون کرنے کے لیے آگے آتے ہیں۔ گویا جو مسلمان بخل وکنجوسی کے مرض میں مبتلا ہیں ان کے اندر عملی نفاق ہے اور یہ ایمان کی کمزوری کی علامت ہے۔ [1] میں چاہتا ہوں کہ برابر برابر چھوٹ جاؤں نہ مجھے کچھ ملے اور نہ میرامواخذہ ہو: آپ کا یہ زرّیں کلام گھلا دینے والے احساس اور ادائیگی ذمہ داری کے پورے پورے تصور کی عکاسی کرتا ہے۔ ولایت وحکومت کا بوجھ اٹھانا بلند ترین اعمال صالحہ میں سے ایک عظیم عمل کی طرف پیش قدمی ہے، لیکن اس میں خطرناک بھول اور لغزشوں کا اندیشہ بھی ہوتا ہے جو حاکم وقت کو کبھی کبھار بدترین عمل کی طرف مائل کر دیتے ہیں۔ کتنے ایسے حاکم وذمہ دار گزرے ہیں جو اپنے ہر چھوٹے بڑے معاملہ میں محاسبۂ نفس کے ذریعہ سے انسانوں میں اور اللہ کے نزدیک ذکر خیر کے مستحق بنے اور کتنے ایسے ذمہ دار وحکام گزرے ہیں کہ جن کا کام اس کے بالکل برخلاف تھا، اس لیے کہ انہوں نے اپنے نفس کی پیروی کی اور انسانوں کی رضامندی کو اللہ کی رضامندی پر مقدم کیا۔ عمر رضی اللہ عنہ تاریخ کی ان عظیم ہستیوں میں سے تھے جنہوں نے عدل و انصاف کی کامل اور سچی تصویر پیش کی، لیکن اس کے باوجود آپ مذکورہ بات فرما رہے ہیں۔ یہ خوفِ الٰہی کا ہی نتیجہ ہے کہ حکومت سنبھالنے کے اجر وصلہ کو بھلا بیٹھے تاکہ اگر کوئی کار گناہ ہوگیا ہو تو وہ صاف ہوجائے۔ [2] آپ کے حکیمانہ اقوال جو لوگوں میں ضرب المثل بن گئے: آپ نے فرمایا: ’’جس نے اپنے راز کو راز رکھا اس کی بھلائیاں اس کے ہاتھ میں ہیں اور جس نے خود کو مقام تہمت پر کھڑا کیا تو وہ اپنے ساتھ بدظنی کرنے والے کو ملامت نہ کرے اور اگر تمہارے بھائی کی زبان سے تمہارے حق میں کوئی بری بات نکل گئی اور تمہیں اس میں خیر کا کوئی پہلو نظر آرہا ہے تو اس کے ساتھ ہرگز بدگمانی نہ کرو۔ اپنے بھائی کے معاملہ کو بھلائی پر محمول کرو، یہاں تک کہ اس کے خلاف کوئی چیز دیکھ لو اور زیادہ قسمیں نہ کھاؤ کہ اللہ تمہیں رسوا کردے اور جس نے تمہارے حق میں برا کیا اسے تم اسی طرح کا برا بدلہ نہ دو، بلکہ اس کے حق میں بھلائی کا مظاہر ہ کرو اور سچے بھائیوں کو دوست بناؤ، ان کو خوش رکھو، اس لیے کہ وہ لوگ آسانی میں زینت اور مصیبت میں زاد راہ ہیں۔‘‘ [3] یہ ہیں عمر رضی اللہ عنہ کی حکیمانہ باتیں، کہ ہر حکمت تربیت کی دنیا میں ایک نیا افق ہے۔ ان حکیمانہ اقوال پر کچھ مفید تعلیق بھی پیش خدمت ہے:
[1] التاریخ الإسلامی: ۲۰/ ۲۶۶