کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 300
جو اور شہد سے اور خمر (شراب) اس چیز کو کہتے ہیں جو عقل کو مدہوش کردے اور تین چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں میری خواہش ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پانے سے پہلے ہمیں ان کے بارے میں بتا دیتے۔ دادا اور کلالہ (کی میراث) اور سود کے کچھ ابواب یعنی سود کی چند شکلیں۔‘‘ [1] ایک مرتبہ آپ نے رعایا کے حقوق اور خیر خواہی کے موضوع پر جمعہ کا خطبہ دیا، فرمایا: ’’اے لوگو! بعض لالچ فقر ہے، اور بعض مایوسی غنٰیہے۔ تم لوگ جمع کرتے ہو اسے کھاتے نہیں اور ایسی امیدیں لگاتے ہو جنھیں پاتے نہیں۔ دنیا کی زندگی میں (آخرت کو) پیچھے چھوڑے ہوئے ہو۔ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں وحی الٰہی کے ذریعہ سے تمہاری گرفت ہوجاتی تھی، جس نے کچھ چھپا لیا، اس کے بھید کا مواخذہ ہوگا اور جس نے کسی چیز کو علانیہ کیا تو اس کے ظاہر کے مطابق اس کا مواخذہ ہوگا۔ ہمارے سامنے اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرو، باطن کو اللہ زیادہ جانتا ہے۔ اور جس نے بظاہر غلط کیا اور یہ کہا کہ میرا باطن بہتر ہے تو ہم اس کی تصدیق نہیں کرتے، اور جس نے علانیہ طور پر بظاہر اچھا کیا تو ہم اس کے بارے میں اچھا گمان کریں گے۔ جان لو: بعض بخل وکنجوسی نفاق کا ایک حصہ ہیں، لہٰذا اپنی جانوں (کی حفاظت) کے لیے بہتر مال خرچ کرو۔ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (الحشر:۹) ’’جو بھی اپنے نفس کے بخل سے بچایا گیا وہی کامیاب (اور بامراد) ہے۔‘‘ اے لوگو! اپنا ٹھکانا بہتر بناؤ، اپنے معاملات کو درست رکھو، اپنے ربّ اللہ سے ڈرو، اپنی عورتوں کو قباطی (عبائیں) نہ پہناؤ، کیونکہ اس میں اگرچہ اعضاء نظر نہیں آتے لیکن وہ نشیب وفراز کو ضرور ظاہر کرتا ہے۔ اے لوگو! میں چاہتا ہوں کہ اس حال میں میری خلاصی ہو جائے، نہ مجھے کچھ ملے اور نہ مواخذہ ہو اور امید کرتا ہوں کہ میں نے تمہارے درمیان تھوڑی یا زیادہ جو بھی زندگی پائی، ان شاء اللہ حق کے مطابق کام کرتا رہوں اور یہ کہ کوئی مسلمان اللہ کے مال سے اپنا حق وحصہ پانے سے محروم نہ رہے، خواہ وہ اپنے گھر پر ہی رہا ہو اور اس کے لیے کبھی کچھ نہ کیا ہو۔ اللہ نے تمہیں جو روزی دی ہے اسے درست کرلو اور آسانی سے مل جانے والی تھوڑی روزی اس کثیر روزی سے بہتر ہے جو بہت جانفشانی سے میسر آئے اور قتل اموات میں سے ایک موت ہے جس سے اچھے اور برے دونوں دوچار ہوتے ہیں اور شہید وہ ہے جو اللہ ہی سے ثواب کی امید رکھے اور جب تم اونٹ خریدنا چاہو تو لمبے اور مضبوط اونٹ کے پاس جاؤ اور اسے ایک لاٹھی مارو اگر وہ سخت جاں نکلے تو اسے خرید لو۔‘‘ [2]
[1] التبیان فی آداب حملۃ القرآن، نووی، ص: ۶۰۔ فرائد الکلام، ص: ۱۶۳ [2] الزہد، إمام أحمد، ص: ۱۷۴۔ فرائد الکلام، ص:۱۶۸۔ [3] فرائد الکلام، ص: ۱۵۷۔ مفتاح دارالسعادۃ: ۱/ ۱۲۱ [4] فرائد الکلام، ص: ۱۵۹۔ البیان والتبیین، جاحظ: ۲/ ۳۰۳ [5] أخبار عمر، ص: ۲۶۳۔ محض الصواب: ۲/ ۶۸۶ [6] محض الصواب: ۲/ ۷۱۷