کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 296
تَشْبَعُ ، وَمِنْ دَعْوَۃٍ لَا یُسْتَجَابُ لَہَا۔)) [1] ’’اے اللہ! میں ایسے علم سے تیری پناہ چاہتا ہوں جو نفع نہ دے اور ایسے دل سے جو خوف نہ کھائے، اور ایسے نفس سے جو آسودہ نہ ہو اور ایسی دعا سے جسے قبول نہ کیا جائے۔‘‘ امت مسلمہ نے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی علمی گہرائی کی شہادت دی ہے اور یہ اعتراف کیا ہے کہ اسلام کے شروع دور میں آپ امت مسلمہ کے فقیہ تھے۔ فکر وفہم کی گیرائی، تحلیل وتجزیہ کی قدرت اور استنباط کی مہارت میں آپ نے شہرت پائی۔ اللہ کے فضل وتوفیق کے بعد آپ مذکورہ جن خصوصیات واوصاف سے متصف ہوئے حقیقت میں اس ممتاز مقام ومنصب کے لیے وہ ضروری بھی تھیں۔ چنانچہ جب خلافت آپ کے ہاتھ میں آئی تو آپ مسلمانوں کے فقیہ بن کر ابھرے اور اسلام کی حقیقی معرفت نیز اس کی جوہر شناسی کے نتیجہ میں آپ نے اپنے اجتہادات کے ذریعہ سے عدالت و ثاقت کے قواعد وضع کیے، فقیہ سمجھے جانے والے صحابہ میں آپ سب سے آگے تھے۔ سلف صالحین نے آپ کے علم، سمجھ، اور شرعی احکام کی دقیق معرفت کو خوب سراہا ہے۔ آپ حدیث قبول کرنے میں بہت محتاط تھے اور صحابہ کے ساتھ علمی مذاکرہ کا اہتمام کرتے تھے۔ جن مسائل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سیکھ سکے تھے انہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھتے تھے۔ طلب علم پر رغبت دلانے والے بہت سے اقوال آپ سے ثابت ہیں۔ اپنی رعایا کو تعلیم وتوجیہ سے نوازا، فقہ وفتویٰ کے لیے آپ نے مدینہ میں ایک گھر خاص کیا، جو بعد میں مدرسہ کی شکل اختیار کرگیا اور اس سے قاضی وحکمران بن کر نکلنے لگے۔ اس مدرسہ نے صحابہ کی ایک ایسی منتخب جماعت تیار کی جنہوں نے فتوحات کے موقع پر علمی اداروں (مسجدوں) کی قیادت کی۔ انہوں نے کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں مفتوحہ اقوام کو اسلامی تعلیم و تربیت دی۔ اس طرح علمی مدارس کی تاسیس میں سب سے پہلی اینٹ آپ نے رکھی اور یہ علمی مدارس جیسے بصرہ، کوفہ اور شام کے مدارس امت مسلمہ کے دلوں میں کافی مؤثر ثابت ہوئے۔ آپ نے مکی اور مدنی مدارس کو خصوصی ترقی عطا کی۔ ۱: حدیث قبول کرنے میں احتیاط، علمی مذاکرہ، اور نامعلوم مسائل کے بارے میں استفسار : حدیث قبول کرنے میں احتیاط: ایک مرتبہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آنے کی اجازت مانگی، لیکن اجازت نہ ملی … شاید عمر رضی اللہ عنہ کسی کام میں مشغول تھے … ابوموسیٰ اشعری واپس لوٹ گئے۔ جب عمر رضی اللہ عنہ اپنے کام سے
[1] التمکین للأمۃ الإسلامیۃ، ص: ۶۲