کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 291
دروازے پر لائے اور اپنی بیوی سے کہا: عورت کو کھلا کر خوب آسودہ کردو۔ چنانچہ انہوں نے اسی طرح کیا، پھر ہنڈیا کو اندر سے نکال کر باہر دروازے پر رکھ دیا۔ عمر رضی اللہ عنہ اٹھے اور اسے لا کر آدمی کے سامنے رکھ دیا اور کہا: کھاؤ تم پوری رات جاگتے رہے ہو اور اپنی بیوی سے کہا: چلو نکلو، اور آدمی سے کہا: جب صبح ہو تو میرے پاس آنا، تمہیں تمہارے فائدہ کی چیزیں دلواؤں گا۔ جب صبح ہوئی تو وہ آیا، تو آپ نے اس کے لڑکے کا وظیفہ جاری کیا اور کچھ عطیہ بھی دیا۔ [1] اللّٰہ کی قسم میں ایسی نہیں ہوں کہ مجلس میں اس کی بات مانوں اور تنہائی میں نافرمانی کروں: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے غلام اسلم سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ عمر رضی اللہ عنہ مدینہ میں گشت لگا رہے تھے اور میں آپ کے ساتھ تھا۔ (آپ باتیں کررہے تھے) اچانک خاموش ہوگئے، آدھی رات کا وقت تھا، آپ ایک دیوار کے کنارے ٹیک لگا کر کھڑے ہوگئے، آپ نے سنا کہ ایک عورت اپنی لڑکی سے کہہ رہی ہے: اے بیٹی اٹھو اور دودھ میں پانی ملا دو۔ بیٹی نے کہا: اے امی جان! کیا امیر المومنین کے فرمان کی خبر آپ کو نہیں ہے؟ اس نے کہا: ان کا کیا فرمان ہے؟ بیٹی نے بتایا کہ انہوں نے اپنے منادی سے اعلان کروا دیا ہے کہ دودھ میں پانی نہ ملایا جائے۔ ماں نے بیٹی سے کہا: اے بیٹی! اٹھو اور اس میں پانی ملا دو۔ یہاں تمہیں نہ تو عمر دیکھ رہے ہیں اور نہ ان کا منادی۔ لڑکی نے کہا: واللہ! میں ایسی نہیں ہوں کہ مجلس میں ان کی اطاعت کروں اور تنہائی میں اس کی نافرمانی کروں … اور عمر رضی اللہ عنہ یہ سب سن رہے تھے … آپ نے اسلم سے کہا: اے اسلم اس دروازے پر نشان لگا دو، اور اس جگہ کو اچھی طرح پہچان لو۔ پھر آپ گشت کرنے لگے۔ جب صبح ہوئی تو کہا: اے اسلم! رات والی اس جگہ پر جاؤ اور کہنے والی اور جس سے کہہ رہی تھی دونوں کا پتہ چلاؤ اور معلوم کرو کہ کیا دونوں شوہر والی ہیں؟ اسلم کا بیان ہے کہ میں اس جگہ آیا اور معلوم کیا تو پتہ چلا کہ لڑکی غیر شادی شدہ ہے اور اس کی ماں کا شوہر زندہ نہیں ہے۔ میں عمر کے پاس آیا اور ان کو صورت حال سے آگاہ کیا۔ آپ نے اپنے لڑکوں کو بلایا اور کہا: کیا کسی کو عورت کی ضرورت ہے کہ میں اس کی شادی کردوں؟ اگر تمہارے باپ کو اب عورتوں کی کچھ بھی خواہش باقی ہوتی تو اس لڑکی سے شادی کرنے میں ان سے کوئی آگے نہ بڑھ پاتا۔ یہ سن کر عبداللہ نے کہا: میرے پاس بیوی ہے۔ عبدالرحمن نے کہا: میرے پاس بھی بیوی ہے۔ عاصم نے کہا: اے اباجان! میرے پاس بیوی نہیں ہے، اس سے میری شادی کردیجیے۔ آپ نے لڑکی کو بلا بھیجا اور اس سے عاصم کی شادی کردی۔ ان سے اس لڑکی کے ایک بچی پیدا ہوئی، اور پھر عاصم کے ایک نواسی پیدا ہوئی، اور پھر نواسی سے ایک لڑکی ہوئی اور اس سے عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کی پیدائش ہوئی۔ [2]
[1] العشرۃ المبشرون بالجنۃ، العفیفی، ص: ۱۷۳