کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 288
بھگانا ہی چاہتے ہیں تو مجھے میرے چچا زاد بھائی نصر بن حجاج کے پاس جانے کی اجازت دیجیے۔ دونوں کا تعلق قبیلہ بنو سلیم سے تھا، آپ نے اسے اس کے چچا زاد بھائی کے پاس بھیج دیا۔ [1] سچ یہ ہے کہ امت مسلمہ کے بگاڑ کے اندیشوں نے عمر رضی اللہ عنہ کو اس اقدام پر مجبور کیا تھا، آپ کی کامل وقوی شخصیت جو لوگوں کی مختلف صلاحیتوں کو پہچاننے کی مہارت رکھتی تھی، اس نے حکمت ودور اندیشی پر مبنی ایسے کئی اقدام کیے، گویا فاروقی عہد خلافت اسلامی فوج تیار کرنے اور جہاد کی طاقت رکھنے والوں کو جہاد کے لیے بھیجنے کا زرّیں عہد تھا۔ یہ کیسے ہوسکتا کہ عمر رضی اللہ عنہ مذکورہ دونوں نوجوانوں کی موجودگی کو مدینہ میں گوارا کرتے، حالانکہ انہیں جہاد میں شرکت کی کوئی مجبوری نہ تھی۔ لہٰذا انہیں شعر گوئی اور عورتوں کے درمیان بیٹھنے کے لیے مہلت دینے سے بہتر یہی تھا کہ ان کو مدینہ سے باہر ہی بھیج دیا جائے۔ [2] کیا تم قیامت کے دن میری طرف سے میرا بوجھ اٹھاؤ گے؟ سیّدناعمر رضی اللہ عنہ کے غلام اسلم سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ عمر رضی اللہ عنہ ’’حرہ واقم‘‘[3] تک گئے، میں بھی آپ کے ساتھ تھا، جب ہم لوگ ’’صرار‘‘[4] پہنچے تو ہمیں آگ کے شعلے دکھائی دئیے۔ آپ نے فرمایا: اے اسلم! میرا خیال ہے کہ یہاں کوئی قافلہ ٹھہرا ہے، رات اور سردی کی وجہ سے وہ یہیں مقیم ہے، آؤ چلیں دیکھیں، ہم تیزی سے چل کر وہاں پہنچے، جب قافلہ والوں کے قریب ہوئے تو دیکھا کہ ایک عورت ہے اور اس کے ساتھ کچھ بچے ہیں اور آگ پر ہنڈیا رکھی ہوئی ہے، اور بچے اس کے اردگرد بیٹھے زور زور سے رو رہے ہیں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے وہاں پہنچ کر کہا:اے روشنی والو! السلام علیکم۔آپ نے’’اے آگ والو!‘‘ کہنا ناپسند کیا، عورت نے جواب دیا: وعلیکم السلام۔ آپ نے پوچھا: کیا میں قریب آسکتا ہوں؟ عورت نے کہا: اگر کسی خیر کا ارادہ ہے تو آؤ ورنہ کوئی ضرورت نہیں۔ آپ اس کے قریب گئے اور کہا: آپ لوگ یہاں کیسے؟ اس نے بتایا کہ ٹھنڈ اور رات ہوجانے کی وجہ سے ہم یہیں ٹھہر گئے۔ آپ نے پوچھا: یہ بچے کیوں رو رہے ہیں؟ اس نے کہا: بھوک سے۔ آپ نے پوچھا: اس ہنڈیا میں کیا ہے؟ اس نے کہا: صرف پانی ہے، ان کا دل بہلا رہی ہوں تاکہ سوجائیں۔ اللہ ہی ہمارے اور عمر کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ آپ نے فرمایا: یقینا اللہ تم پر رحم کرے، لیکن عمر کو تمہاری کیا خبر؟ اس نے کہا: وہ ہمارا حاکم ہے اور ہم سے غافل ہے۔ اسلم کا بیان ہے کہ پھر آپ میری طرف متوجہ ہوئے اور کہا: ہمیں چلنا چاہیے، ہم
[1] مناقب أمیر المومنین، ابن الجوزی، ص: ۹۲، ۹۳