کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 286
خط پا کر سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عورت سے کہلوایا کہ تمہارے بارے میں اچھے اخلاق کی خبر ملی ہے، میں نے تمہاری وجہ سے نصر کو یہاں سے نہیں نکالا ہے بلکہ میں نے سنا ہے کہ وہ عورتوں میں جاتے تھے، سو میں ان عورتوں سے مامون نہیں ہوں۔ یہ کہہ کر آپ رو پڑے اور کہا: اللہ کا شکر ہے جس نے شہوتوں کو قید کردیا اور اسے لگام دی، اور زین کے ساتھ کس کے باندھ دیا۔ [1] اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ نے بصرہ کے اپنے گورنر کو ایک خط تحریر کیا، آپ کا کارندہ وہاں خط لے کر گیا اور کئی دنوں کے قیام کے بعد لوگوں میں اعلان کروایا کہ مسلمانوں کی ڈاک جانے والی ہے، لہٰذا جسے ضرورت ہو وہ امیرالمومنین کو خط لکھ دے، چنانچہ نصر بن حجاج نے ایک خط لکھ کر دوسرے کئی خطوط کے درمیان رکھ دیا۔ خط کا مضمون یہ تھا: بسم اللہ الرحمن الرحیم اللہ کے بندے عمر، امیر المومنین کے نام! سلام اللہ علیک، حمد وصلاۃ کے بعد! لعمری لئن سیرتنی أو فضحتنی وما نلتہ منی علیک حرام ’’قسم ہے اللہ کی، اگر آپ نے مجھے جلا وطن کیا یا رسوا کیا، اور جو کچھ بھی میرے ساتھ کیا سب آپ پر حرام ہے۔‘‘ فأصبحت منفیا علی غیر ریبۃ وقد کان لی بالمکتین مقام ’’میں بغیر کسی تہمت کے جلا وطن کردیا گیا، حالانکہ مکہ ومدینہ میں میرے لیے ٹھہرنے کی جگہ تھی۔‘‘ أ إن غنت الزلفاء یومًا بمنیۃ و بعض أمانی النساء غرام ’’کیا اگر کسی دن شعر کی کسی دیوانی نے اپنی آرزو کو ترنم سے گا دیا، حالانکہ عورتوں کی بعض آرزوئیں باعث ہلاکت ہوتی ہیں۔‘‘ ظننت بی الظن الذی لیس بعدہ بقاء فما لی فی الندی کلام
[1] اولیات الفاروق، ص: ۸۲