کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 280
اٹھاؤ اور تجارت کرو، راستہ کھلا ہوا ہے، لوگوں پر بوجھ نہ بنو۔ [1] اور آپ نے فرمایا: تم میں سے کوئی طلب رزق سے (عاجز آکر ) بیٹھ نہ جائے اور کہنے لگے: اے اللہ مجھے روزی دے دے، حالانکہ اسے معلوم ہے کہ آسمان سونا اور چاندی نہیں برساتا،بلکہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے ہاتھ سے روزی دیتا ہے۔ پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (الجمعۃ:۱۰) [2] ’’پھر جب نماز پوری کر لی جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کے فضل سے (حصہ) تلاش کرو اور اللہ کو بہت یاد کرو، تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘ اگر آپ کسی اچھے اور تندرست نوجوان کو دیکھتے تو اس سے پوچھتے کہ کیا تمہارا کوئی پیشہ ومشغلہ ہے؟ اگر جواب ملتا کہ نہیں، تو فرماتے: یہ میری نگاہوں سے گر گیا۔ [3] اور آپ نے فرمایا: جہاد فی سبیل اللہ کے علاوہ کسی دوسری جگہ اگر میری موت آئے تو میری دلی خواہش ہے کہ میں اس حال میں مروں کہ میں اپنی سواری پر اللہ کے فضل کی تلاش میں نکلا ہوا ہوں۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت کی: وَآخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِي الْأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ (المزمل: ۲۰)[4] ’’(وہ اللہ جانتا ہے کہ) بعض دوسرے زمین میں چل پھر کر اللہ تعالیٰ کا فضل (یعنی روزی) بھی تلاش کریں گے۔‘‘ اہم مسلم شخصیات کی تجارت سے کنارہ کشي پر سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کا خوف: آپ اپنے دورِ خلافت میں ایک مرتبہ بازار گئے، دیکھا تو اکثر تاجر نبطی (عراقین کے درمیان عجمی باشندے) تھے۔ آپ یہ دیکھ کر مغموم ہوگئے اور جب لوگ جمع ہوئے تو آپ نے تجارت سے دوری اور بازار سے ان کی کنارہ کشی کا ذکر کرتے ہوئے وجہ پوچھی۔ انہوں نے بتایا کہ اللہ نے فتوحات کی کثرت سے (مالِ غنیمت دے کر) ہمیں بازاروں سے بے نیاز کردیا ہے۔ تو آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم، اگر تم ایسا کرنے لگے تو تمہارے مرد ان کے مردوں کے اور تمہاری عورتیں ان کی عورتوں کی محتاج ہوجائیں گی۔ [5]
[1] شہید المحراب، ص: ۲۱۰ [2] نظام الحکومۃ النبویۃ: ۲/ ۲۰ [3] نظام الحکومۃ النبویۃ: ۲/ ۲۰ [4] نظام الحکومۃ النبویۃ: ۲/ ۲۰ [5] قباحتوں کا مطلب یہ ہے کہ لوگ اسے معیوب سمجھتے ہوں حالانکہ وہ پیشہ حلال ہو۔ (مترجم) [6] نظام الحکومۃ النبویۃ: ۲/ ۲۰