کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 28
اس کتاب میں آپ کے دور کی آبادیاتی ترقی اور وقتی بحران سے نمٹنے کا تذکرہ ہے۔ گزرگاہوں اور خشکی و سمندری وسائل، نقل اور سڑکوں اور راستوں نیز فوجی چھاؤنیوں اور تمدنی مراکز کے قیام کے سلسلہ میں آپ کے شدت اہتمام کا ذکر ہے۔ اس حقیقت پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ آپ کے زمانے میں بصرہ، کوفہ، فسطاط اور سیرت جیسے بڑے بڑے شہر کیسے آباد ہوئے؟ مالیاتی اور عدالتی نظام کی ترقی ، ملکی آمدنی کے ذرائع ، بیت المال کا قیام ، مردم شماری کے دفاترکی تیاری نیز اسلامی مملکت کے کون سے اخراجات تھے اور خراج کی زمینیں ، سکوں کی ایجاد میں آپ کا کردار ۔’’قحط سالی‘‘ کے بحران سے نمٹنے کے لیے آپ نے کون سا اسلوب اختیار کیا اور کیسے آپ نے خود کو لوگوں کے سامنے ایک نمونہ کی شکل میں پیش کیا۔ اس سال پناہ گزینوں کے لیے آپ نے کیسے خیمے تیار کرائے، اللہ تعالیٰ سے اور پھر مختلف صوبوں سے کیسے مدد طلب کی، نماز استسقاء کا اہتمام اور اس سال کے بعض فقہی اجتہادات، مثلاً چوری پر حد نافذ نہ کرنا اور زکوٰۃ کی ادائیگی میں تاخیر کو قبول کرلینا وغیرہ مباحث کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔
آج ہمیں اللہ رب العزت نے اس جلیل القدر ہستی پر کتاب شائع کرنے کی سعادت بخشی جس کے علمی کارناموں نے مدینہ کو فقہ و فتاویٰ کا مرکز اور ایسا مدرسہ بنا دیا جس سے علماء، مبلغین، گورنر اور قاضی حضرات فارغ ہوئے اور دوسرے شہروں کی علمی درسگاہیں مثلاً مکہ، مدینہ، بصرہ، کوفہ، شام اور مصر کے مدارس بھی فیض یاب ہوئے۔
یہ کتاب سلسلہ تاریخ الخلفاء الراشدین کی سب سے اہم کڑی ہے، اس میں زندگی کے ہر شعبے سے متعلق اُٹھنے والے سوالات کے جوابات ہیں۔ اگر آج ہم مسلمان پھر سے سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی سیرت کو اپنا لیں تو دُنیا میں کوئی قوم ایسی نہیںجو ہمیں غلام بنا سکے۔
اے اللہ! ہمیں اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا پیرو کار بنا دے، اُس کے خلفائے راشدین کی سیرت پر عمل کرنے والا بنا دے ۔
اے پروردگار! تو مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر بجا لاؤں جو تو نے مجھ پر انعام کی ہیں اور میرے ماں باپ پر اور میں ایسے نیک عمل کرتا رہوں جن سے تو خوش رہے، مجھے اپنی رحمت سے نیک بندوں میں شامل کرلے۔
ابو ساریہ عبدالجلیل
جدہ ، سعودی عرب