کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 279
ہے کہ لوگوں کی ضروریات کی تکمیل کے لیے مختلف اشکال میں توجہ دینے کے مقابلے میں بازاروں کے نظام و انصرام پر خصوصی توجہ دے دینا ہی لوگوں کی راحت رسانی کا بہت بڑا سبب ہے۔ پس جب حاکم اس پہلو سے بازاروں کی تنظیم ونگرانی کا مکمل طور پر اہتمام کرے تو اسے اللہ کی طرف سے اجر و ثواب ملے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ کے صحیح وسالم اور دقیق عملی کردار و تصرف نے یہ بات ثابت کردی کہ اسلام ہر زمانے اور دنیا کے چپہ چپہ میں ہر جگہ کے لیے مناسب اور قابل عمل ہے۔ پست اقوام کو ترقی کی طرف لے جاتا ہے اور ترقی یافتہ اقوام کو تنزلی کے گڑھے میں گرنے اور زوال سے بچاتا ہے۔ آگے بڑھنے کا راستہ نہیں روکتا کہ وہ آگے نہ بڑھے اور نہ غافل کو خواب خرگوش میں مدہوش چھوڑتا ہے۔ [1] لوگوں کو محنت کا حکم دینا اور کمانے پر ابھارنا: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ لوگوں کو محنت کرنے اور اپنی روزی روٹی کمانے پر ابھارتے رہتے تھے۔ محمد بن سیرین اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے مغرب کی نماز عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ پڑھی، تو آپ میرے پاس آئے، میرے پاس کپڑے کی ایک چھوٹی گٹھڑی تھی، آپ نے پوچھا: تمہارے سامنے یہ کیا ہے؟ میں نے کہا: کپڑے کی گٹھڑی ہے، اس بازار میں اسے لے جاتا ہوں اور خرید و فروخت کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: اے قریش کے لوگو! یہ اور اس طرح کی دوسری چیزیں تجارت کے مقابلے میں تم پر ہرگز غالب نہ ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ تجارت ایک تہائی حکمرانی ہے۔ حسن سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جو شخص کسی چیز کی تین مرتبہ تجارت کرے اور کامیاب نہ ہو تو اس کے علاوہ دوسری تجارت شروع کرے۔ [2] سیّدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کسی نہ کسی چیز کا ہنر سیکھ لو، ممکن ہے کہ تمہارے ہنر کا کوئی ضرورت مند ہوجائے۔[3] اور فرمایا: اگر یہ لین دین نہ ہوتے تو تم دوسروں کے دست نگر (محتاج) ہوتے۔ [4] اور فرمایا: ایسی کمائی جس میں اگرچہ بعض قباحتیں [5] ہوں، لوگوں سے مانگنے اور گداگری سے بہتر ہے۔ [6] ایک مرتبہ آپ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اونٹ خریدے تو بڑا اور موٹا دیکھ کر خریدے، پس اگر اس کے انتخاب میں غلطی ہوگئی تو بازار اس کے ساتھ غلطی نہیں کرے گا اور کہا: اے محتاجوں کی جماعت! اپنے سروں کو
[1] نظام الحکومۃ الإسلامیۃ، الکتانی: ۲/ ۱۷ [2] نظام الحکومۃ الإسلامیۃ، الکتانی: ۲/ ۱۷ [3] شہید المحراب، ص: ۲۰۹ [4] شہید المحراب، ص: ۲۰۹