کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 277
مسلم بن جندب سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ مدینہ میں کہیں سے غلہ آیا، بازار والوں نے بڑھ کر اسے خرید لیا۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا ہمارے ہی بازاروں میں تم تجارت کرتے ہو؟ (یعنی یہیں سستی قیمت میں خریدتے ہو اور پھر زیادہ قیمت پر فروخت کرتے ہو) دوسرے لوگوں کو بھی شرکت کا موقع دو، یا یہاں سے چلے جاؤ، باہر سے مال خریدو، پھر یہاں لا کر اسے فروخت کرو۔[1] سیّدناعمر رضی اللہ عنہ صرف لوگوں کی خوراک اور جانوروں کی غذا ہی کے احتکار سے نہیں بلکہ ہر وہ چیز جس کی قلت لوگوں کی تکلیف کا سبب بنے اس کے احتکار سے منع فرماتے تھے۔ چنانچہ موطا امام مالک میں روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہمارے بازار میں احتکار (ذخیرہ اندوزی) کی اجازت نہیں ہے اور وہ لوگ جن کے ہاتھوں میں ضرورت سے زیادہ مال ہے وہ اللہ کی اس روزی کی طرف نہ بڑھیں جو ہمارے درمیان آئی ہوتی ہے تاکہ وہ اسے ذخیرہ کر لیں۔ ہاں کوئی بھی تاجر جو سردی یا گرمی کے موسم میں باہر سے مال لاد کر لائے وہی عمر کا مہمان ہوگا، وہ جس طرح چاہے فروخت کرے اور جس طرح چاہے روک کر رکھے۔ [2] مذکورہ تمام تر واقعات کا منشا یہ ہے کہ احتکار کا مقصد قیمتوں اور منڈی پر قابض ہونا ہے، اور یہ چیز فقراء، مساکین، محتاجوں نیز بیواؤں کے لیے بہت ہی تکلیف دہ ہوتی ہے، جیسے کہ حاطب بن ابی بلتعہ کے لیے فاروقی توجیہ میں یہ چیز واضح ہے جو ایک درہم میں صرف دو مد بیچتے تھے، تو آپ نے کہا: تم ہمارے دروازوں، گھروں اور بازاروں سے خریدتے ہو اور ہمارے ہی درمیان رہتے ہو، پھر جس طرح چاہتے ہو فروخت کرتے ہو۔ تم ایک درہم میں ایک صاع یعنی چار مد بیچو، نیز محتاجوں اور بیواؤں کا حق مارے جانے کی بات آپ کے اس فرمان سے بھی ظاہر ہے جسے آپ نے بازار میں احتکار کرنے والوں سے فرمایا تھا کہ اللہ ہمارے پاس روزی بھیجتا ہے، یہاں تک کہ جب لانے والا ہمارے بازار میں آگیا تو کچھ لوگوں نے بڑھ کر اسے خرید لیا اور بیواؤں ومسکینوں کو نظر انداز کرکے اس کو ذخیرہ کرلیا، یہاں تک کہ جب باہر کے تاجر مال بیچ کر چلے گئے تو جس طرح چاہا قیمت لگا کر فروخت کردیا، آپ نے ان لوگوں پر سخت نکیر فرمائی۔ [3] آپ تاجروں اور خریداروں کی ضرورت وحفاظت کے پیش نظر بوقت ضرورت ضروری سامان کی قیمت بھی متعین کردیتے تھے۔ ایک آدمی بازار میں تیل فروخت کرنے آیا اور عام تاجروں کی قیمت سے زیادہ قیمت پر بیچنے لگا، عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: یا تو بازار کی عام قیمت میں بیچو یا ہمارے بازار سے چلے جاؤ۔ ہم تمہیں کم قیمت پر مجبور نہیں کرتے، آپ نے اسے بازار سے دور بھگا دیا۔ [4]
[1] صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۱۵۸۶ [2] ہاتھوں ہاتھ ہونے کا مطلب ہے کہ لین دین ادھار نہ ہو نقد ہو، فریقین میں سے ہر ایک، ایک ہاتھ سے دے اور دوسرے ہاتھ سے لے۔ بیع صرف میں ادھار جائز نہیں ہے۔ (مترجم) [3] الحسبۃ فی الإسلام، ابن تیمیۃ، ص: ۶۰۔ الحسبۃ، د/ فضل الٰہی، ص: ۲۴ [4] بازار میں کسی مال کی سخت قلت ہو اور زیادہ سے زیادہ گرانی کے انتظار میں مال کو دبائے رکھنا ’’احتکار‘‘ ہے۔ [5] موسوعۃ فقہ عمر بن الخطاب رضی اللّٰه عنہ ، قلعجی، ص: ۲۸ [6] آپ کا مقصد یہ تھا کہ اگر تاجر باہر کا ہے اور سامان باہر سے لایا ہے تو وہی ہمارا مہمان ہوگا۔ (مترجم)