کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 274
حج نہ کیا ہو تو وہ اس پر جزیہ لگا دیں۔ [1] آپ نے کوشش کی کہ حج کے علاوہ دوسرے مہینوں میں بھی خانہ کعبہ عبادت گزاروں سے معمور رہے۔ لوگ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے ابتدائی دور خلافت میں عمرہ صرف حج کے مہینوں میں کرتے تھے اور دوسرے مہینوں میں نہیں کرتے تھے، جس کی وجہ سے اشہر حج کے علاوہ سال کے دوسرے مہینوں میں خانہ کعبہ زائرین سے خالی رہتا تھا۔ چنانچہ آپنے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے لیے کامل طریقہ اپنائیں، یعنی حج کے علاوہ دوسرے مہینوں میں بھی عمرہ کرنے آئیں، اس طرح خانہ کعبہ حج کے مہینوں اور دوسرے ایام میں بھی معمور رہے گا اور بیت اللہ کے مقصد کی تکمیل ہوتی رہے گی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے جو طریقہ پسند کیا یہی سب لوگوں کے حق میں افضل تھا، حتیٰ کہ ان لوگوں کے لیے بھی جو اس بات کے قائل ہیں کہ حج تمتع، اِفراد اور قران سے افضل ہے، جیسے کہ امام احمد وغیرہ۔[2] آپ کے بارے میں ثابت ہے کہ ہر سال غلاف کعبہ کا صدقہ کرتے اور اسے حاجیوں میں تقسیم کر دیتے۔[3] اور جہاں تک روزے کی بات ہے تو اس سلسلہ میں آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلتے رہے۔ آپ کے بارے میں ثابت ہے کہ ایک مرتبہ ابر آلود موسم میں آپ نے وقت سے پہلے افطار کرلیا، پھر سورج طلوع ہونے کی اطلاع ملی، تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: معاملہ معمولی ہے، ہم نے اپنی بساط کے مطابق اجتہاد کیا۔ [4] سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کو خبر ملی کہ ایک آدمی صوم دہر(ہمیشہ کا روزہ) رکھتا ہے، آپ اس کے پاس آئے اور مارنے کے لیے درّہ اٹھایا اور کہنے لگے: کھا، اے دہری! [5] آپ کافی عبادت گزار اور اطاعت الٰہی کے شیدائی تھے، نماز سے انتہائی درجہ آپ کو لگاؤ تھا اور روزے کا بھی حق ادا کرتے، خاص طور سے آخری عمر میں اور صدقہ کے باب میں اس سے زیادہ کوشش کرتے اور خلافت کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد ہر سال حج کرتے رہے اور جہاد، تو اس سلسلہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام غزوات میں شریک رہے اور آپ کے بعد بھی جنگیں لڑیں۔ آپ کی مدت خلافت میں جتنی بھی جنگیں لڑی گئیں اور فتوحات ہوئیں سب کا اجر آپ کو ملے گا، کیونکہ آپ ہی اس کے حقیقی محرک تھے۔ [6] آپ ذکر الٰہی کے شیدائیوں میں سے تھے، آپ نے ذکر الٰہی کے بارے میں کہا: اپنے لیے ذکر الٰہی لازم
[1] صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۲۰۱۲ [2] الفتاوٰی: ۳۱/ ۲۳ [3] السلطۃ التنفیذیۃ: ۱/ ۳۸۲ [4] السلطۃ التنفیذیۃ: ۱/ ۳۸۳