کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 272
لوگ الگ الگ نماز پڑھ رہے ہیں، کوئی تنہا پڑھ رہا ہے اور کوئی جماعت کے ساتھ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ اگر ان تمام لوگوں کو ایک امام کے پیچھے اکٹھا کردوں تو زیادہ بہتر ہوگا، پھر آپ نے اس کا پختہ ارادہ کرلیا اور لوگوں کو ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں ان کے پیچھے اکٹھا کردیا۔ حدیث کے ایک راوی عبدالرحمن بن عبدالقاری کا بیان ہے کہ پھر میں آپ کے ساتھ دوسری رات نکلا، لوگ اپنے امام کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے، عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا ہی بہترین بدعت (ایجاد) ہے اور جس وقت وہ سوتے ہیں وہ اس وقت سے افضل ہے جس میں قیام کرتے ہیں۔ یعنی رات کا آخری حصہ۔ اور لوگ اس وقت شروع رات میں ہی قیام کرتے تھے۔ [1] کسی کو یہ وہم نہ ہو کہ تراویح کی ایجاد عمر رضی اللہ عنہ نے کی ہے اور آپ ہی نے سب سے پہلے اس کی بنیاد ڈالی ہے، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے اس پر عمل ہورہا تھا۔ البتہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے تمام لوگوں کو ایک امام کے پیچھے نماز پڑھنے کی بنا ڈالی، اس سے پہلے سب لوگ الگ الگ اسے پڑھتے تھے تو آپ نے ان کو ایک امام کے پیچھے اکٹھا کردیا۔ [2] جہاں تک نماز تراویح کے ثبوت کا تعلق ہے تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، آپ لوگوں کو رمضان کے مہینہ میں قیام اللیل پر ابھارتے تھے، آپ نے فرمایا: (( مَنْ قَامَ رَمَضَانَ اِیْمَانًا وَّاحْتِسَابًا غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ۔)) [3] ’’جس نے رمضان کے مہینہ میں ایمان اور ثواب کی نیت سے قیام کیا اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔‘‘ عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ آدھی رات کے وقت گھر سے باہر نکلے، آپ نے مسجد میں نماز پڑھی اور لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھی، پھر لوگ صبح کے وقت اس کے متعلق باتیں کرنے لگے تو (دوسری رات) ان سے زیادہ تعداد ہوگئی اور انہوں نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی، پھر صبح ہوئی اور لوگوں نے اس سلسلہ میں باتیں کیں اور تیسری رات میں نمازی بہت زیادہ ہوگئے۔ اللہ کے رسول نکلے اور لوگوں کو نماز پڑھائی، پھر چوتھی رات ہوئی تو لوگوں سے مسجد بھر گئی اور اس میں جگہ ہی نہ رہی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز کے لیے نکلے، جب آپ نے فجر پڑھ لی تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوکے خطبہ مسنونہ پڑھا، پھر فرمایا: (( أَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّہُ لَمْ یَخْفَ عَلَیَّ مَکَانُکُمْ وَلٰکِنِّیْ خَشِیْتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَیْکُمْ
[1] الفتاوٰی: ۸/ ۱۱۸ [2] الفتاوٰی: ۱۵/ ۶۰ [3] الفتاوٰی: ۱۰/ ۵۱ [4] الشیخان، بروایت بلاذری، ص: ۲۳۶