کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 268
آپ خشوع وخضوع والی نماز کے بہت حریص تھے، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی، اور تین صفوں کے پیچھے میں نے آپ کے رونے کی آواز سنی۔ [1] ایک روایت میں آیا ہے کہ آپ نے فجر کی نماز میں یہ آیت تلاوت فرمائی: إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللّٰهِ (یوسف:۸۶) ’’میں تو اپنی پریشانیوں اور اپنے رنج کی فریاد اللہ ہی سے کر رہا ہوں۔‘‘ اور رونے لگے، یہاں تک کہ آپ کی ہچکیوں کی آواز پچھلی صفوں میں سنی گئی۔ [2] آپ نے ایک آدمی کو نماز میں بلا وجہ حرکتیں کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: اگر اس کا دل اللہ سے ڈرتا تو اعضائے بدن بھی اس سے خوف کھاتے۔ [3] اگر آپ کو اسلامی افواج کی خبر ملنے میں دیر ہوتی تو نماز کے لیے کھڑے ہوجاتے اور اس میں دعائے قنوت پڑھتے۔ [4] آپ اپنی نماز میں مجاہدین کے لیے دعائیں کرتے اور قنوت پڑھتے چنانچہ جب آپ نے اہل کتاب سے جنگ لڑی تو فرض نماز میں ان پر دعائے قنوت پڑھی۔ [5] آپ سب لوگوں کو اور خود کو بھی نماز اور اس کے فرائض وسنن کے اہتمام کا عادی بناتے تھے، لوگوں کو سنت کی طرف رہنمائی کرتے اور بدعتوں سے روکتے۔ ایک مرتبہ بعض کاموں میں مشغول ہونے کی وجہ سے مغرب کی نماز اتنی تاخیر سے ادا کی کہ دو ستارے نکل آئے، تو آپ نے نماز کے بعد دو غلاموں کو آزاد کیا۔ [6] بلاعذر شرعی دو نمازوں کو اکٹھا کرکے پڑھنا آپ گناہِ کبیرہ سمجھتے تھے، عصر کے بعد نماز پڑھنے والوں کو سختی سے منع کرتے تھے۔ [7] جمعہ کی نماز کے لیے تاخیر سے آنے والوں کو خوب ڈانٹتے اور ملامت کرتے تھے۔ سالم بن عبداللہ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن کھڑے ہو کر خطبہ دے رہے تھے، اتنے میں اوائل مہاجرین میں سے ایک جلیل القدر صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں داخل ہوئے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو آواز دی اور پوچھا: یہ کون سا وقت ہے؟ انہوں نے کہا: میں ایک ضروری کام میں مشغول تھا، اذان سننے کے
[1] فقہ التمکین فی القرآن الکریم، الصلابی، ص: ۱۸۱ [2] الفتاوٰی : ۱۰/ ۲۴۹۔ موطأ مالک مع شرحہ أوجز المسالک: ۱/ ۱۵۴