کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 266
کیا ہے اور بے شک تو اس سے پہلے یقینا بے خبروں سے تھا۔‘‘ تم سے پہلے کی قومیں اس لیے ہلاک ہوئیں کہ انہوں نے اپنے علماء وپادریوں کی کتابوں کو مدار دین بنا لیا اور تورات وانجیل کو چھوڑ دیا، یہاں تک کہ وہ دونوں مٹ گئیں اور ان کا علم غائب ہوگیا۔ [1] اسلم سے روایت ہے کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا: (طوافِ کعبہ کے دوران) رمل [2] کی اب کیا ضرورت باقی رہی؟ لیکن پھر بھی ہم جس چیز کو زمانہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کرتے تھے اسے نہیں چھوڑیں گے۔ [3] حسن بصری سے روایت ہے کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے بصرہ سے حج کا احرام باندھا اور عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، آپ نے ان کو سختی سے ڈانٹا اور اس سے منع کیا، اور فرمایا: بعد میں لوگ کہنے لگیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے بعض صحابہ نے اپنے شہر سے احرام باندھا تھا۔ [4] ابووائل (شقیق بن سلمہ) سے روایت ہے کہ میں خانہ کعبہ میں شیبہ بن عثمان [5] کی کرسی پر بیٹھا تھا تو انہوں نے کہا: اسی جگہ عمر رضی اللہ عنہ بھی بیٹھے تھے۔ پھر آپ نے فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ کعبہ میں جو کچھ سونا اور چاندی موجود ہے وہ سب اللہ کی راہ میں لٹا دوں۔ شیبہ نے کہا: آپ ایسا نہیں کرسکتے۔ انہوں نے پوچھا: کیوں؟ تو شیبہ نے کہا: اس لیے کہ آپ کے دونوں ساتھیوں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ) نے ایسا نہیں کیا ہے۔ تب انہوں نے کہا: وہ دونوں میرے لیے آئینہ ہیں۔ انہی کی پیروی کروں گا۔ [6] یہ چند فاروقی مؤقف ہیں جو توحید کی حفاظت اور بدعات کے ازالہ کے سلسلہ میں آپ کے پرخلوص جذبات کے ترجمان ہیں۔ آپ نے اسلام کی روح یعنی توحید کو خوب سمجھا، اس پر سختی سے عمل کیا اور لوگوں کے دلوں میں بت پرستی کے جو بھی آثار وتصورات تھے انہیں مٹا دیا اور انسانیت کے دل ودماغ کی گہرائیوں میں توحید کا قلعہ قائم کردیا۔ [7] سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اسلامی معاشرہ میں ایمان کی حقیقی تصویر اور اس کے جملہ ارکان کو راسخ کیا، شرک کی
[1] البدایۃ والنہایۃ: ۷/ ۸۲ [2] اصحاب الرسول: ۱/ ۲۶۴۔ اس کی سند صحیح ہے۔