کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 263
تو دیکھا کہ ایک ہی رات میں اللہ نے دریائے نیل میں چھ ہاتھ پانی اوپر کردیا ہے، اسی وقت سے اللہ نے مصریوں کی اس بری رسم ورواج کو آج تک کے لیے مٹا دیا۔ [1] آپ دیکھ رہے ہیں کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس ٹکڑے میں توحید کا خلاصہ کردیا تھا، وہ یہ کہ دریائے نیل صرف اللہ کی قدرت ومشیت سے بہتا اور رواں ہوتا ہے اور لوگوں کے دل ودماغ میں بیٹھے ہوئے فاسد عقیدہ کی خرابیوں اور شبہات کو دور کردیا۔ آپ کے اس حکیمانہ اسلوب دعوت نے مصریوں کے دلوں سے اس عقیدہ کو مٹا دیا۔ [2] تو ایک پتھر ہے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہے: عابس بن ربیعہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے متعلق روایت کرتے ہیں کہ آپ حجر اسود کے پاس آئے، اسے بوسہ دیا اور کہا: ’’میں خوب جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے، نہ تو نقصان پہنچا سکتا ہے، نہ ہی نفع۔ اگر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھتا تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا۔‘‘ [3] درحقیقت یہ اتباع نبوی کی سب سے بہترین مثال اور اس کا سب سے خوب صورت مفہوم ہے۔ [4] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ امام طبری کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے یہ بات اس وجہ سے کہی تھی کہ لوگ ابھی نومسلم تھے اور تازہ تازہ ہی بتوں کی عبادت چھوڑی تھی، آپ ڈرے کہ کہیں جاہل لوگ یہ نہ سمجھ لیں کہ حجر اسود کا بوسہ بعض پتھروں کی تعظیم کا ایک حصہ ہے، جیسے کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ کیا کرتے تھے۔ پس عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بتانا چاہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع میں اس کا استلام کیا جاتا ہے۔ (پتھر کی عظمت کی وجہ سے نہیں۔) اس کے بعد ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کے اس فرمان میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جن امور شرعیہ کی علت وحکمت نہ معلوم ہوسکے اس میں مسلمانوں کو تسلیم ورضا کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور بہتر طریقے سے اتباع کرنا چاہیے۔ اتباع نبوی کے باب میں یہ ایک عظیم قاعدہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا مکمل اتباع ہونا چاہیے اگرچہ آپ کی سنت کی حکمتیں سمجھ میں نہ آئیں۔ [5] سنت نبوی کا اتباع اور اس پر جان نثار ہونے کا جذبہ ہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی غیبی نصرت وتائید کا سبب تھا۔ وہ بخوبی جان چکے تھے کہ اللہ کی محبت پانے اور اس کی مدد وتائید کے استحقاق کے لیے سنت نبوی