کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 261
مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَللّٰهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ (41) (الحج: ۴۰،۴۱) ’’وہ جنھیں ان کے گھروں سے کسی حق کے بغیر نکالا گیا، صرف اس وجہ سے کہ وہ کہتے ہیں ہمارا رب اللہ ہے۔ اور اگر اللہ کا لوگوں کو ان کے بعض کو بعض کے ذریعہ ہٹانا نہ ہوتا تو ضرور ڈھا دیے جاتے (راہبوں کے) جھونپڑے اور (عیسائیوں کے) گرجے اور (یہودیوںکے) عبادت خانے اور (مسلمانوں کی) مسجدیں، جن میں اللہ کا ذکر بہت زیادہ کیا جاتا ہے اور یقینا اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کرے گا، بے شک اللہ یقینا بہت قوت والا، سب پر غالب ہے۔وہ لوگ کہ اگر ہم انھیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے اور زکوٰۃ دیں گے اور اچھے کام کا حکم دیں گے اور برے کام سے روکیں گے، اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے قبضہ میں ہے۔‘‘ امام ابوبکر جصاص اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’یہ مہاجرین کی صفات ہیں، اس لیے کہ وہی لوگ اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے، تو اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ اگر انہیں زمین میں قوت وغلبہ ملا تو نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، اچھے کاموں کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے اور جب خلفائے راشدین ابوبکر، عمر، عثمان اور علی رضی اللہ عنہم کو اللہ نے زمین میں قوت وغلبہ سے سرفراز کیا تو ان کا یہی شیوہ تھا۔‘‘ [1] تاریخ گواہ ہے اور زبان خلق بھی شاہد ہے کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان کاموں کو بحسن وخوبی انجام دیا۔ [2] مالی نظام، محکمہ قضاء، فوجی نظام اور عمال وامراء سے متعلق امور کے متعدد شعبہ جات (جیسے ملکی اداروں کی حفاظت و ترقی) پر آپ نے خصوصی توجہ دی اور منصب خلافت پر بحیثیت خلیفۃ المسلمین نیز اسلامی سلطنت میں مسلم ریاستوں کے توسط سے آپ نے اس بات کی پوری کوشش کی کہ لوگوں سے اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے احکامات کی پابندی کرائیں اور جن کاموں سے اللہ اور اس کے رسول نے منع کیا ہے ان سے لوگوں کو دور رکھیں۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ہر اسلامی ریاست کا اوّلین مقصد ہے اچھے کاموں کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔ ‘‘[3] سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ بدعات وضلالت سے لڑتے رہے، توحید کی مکمل پاسبانی کرتے رہے اور اسلامی معاشرہ میں عبادات کو رائج کرتے رہے، آپ نے برائی کے خلاف اعلان جنگ کیا اور اچھے کاموں کے لیے ہمت افزائی کی۔
[1] الخلفاء الراشدون، حسن أیوب، ص: ۱۱۵ [2] فرائد الکلام، ص: ۱۱۶۔ تاریخ الطبری: ۳/ ۲۸۱ [3] الخلفاء الراشدون، حسن ایوب، ص: ۱۱۵