کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 260
کے لوگ شامل ہوسکیں۔ آپ چند مخصوص لوگوں پر محدود مجالس کو ناپسند کرتے تھے۔ کیونکہ ایسی صورت میں ان کی رائے عام لوگوں سے الگ ہوجاتی ہے۔ جس کا نتیجہ تفریق اور مخالف پارٹیوں کا وجود ہے۔ [1] ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے قریش کے کچھ لوگوں سے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ لوگ مخصوص افراد کو لے کر مجلس منعقد کرتے ہیں، وہ صرف دو آدمیوں کی مجلس نہ ہو کہ کہا جانے لگے: یہ فلاں کے خاص لوگوں اور دوستوں میں سے ہیں اور پھر مجالس کا دائرہ تنگ کردیا جائے۔ اللہ کی قسم! تمہارا یہ عمل تمہارے دین، تمہاری شرافت اور تمہارے آپس کے تعلقات کو بہت تیزی سے ختم کردینے والا ہے اور مجھے خوف ہے کہ تمہارے بعد آئندہ نسلیں کہیں یہ نہ کہیں کہ فلاں کی رائے یہ تھی اور فلاں کا خیال یہ تھا۔ انہوں نے اسلام کو ٹکڑوں میں بانٹ دیا، لہٰذا اپنی مجالس کو وسعت دو اور سب کے ساتھ اٹھو بیٹھو، اس سے آپس میں محبت پیدا ہوگی اور دشمن پر رعب غالب رہے گا۔ 2[2] سچ بات تو یہ ہے کہ خواص کی عوام سے دوری اور اپنے مخصوص رفقاء وہم نشینوں تک اپنی مجالس محدود کردینے کی وجہ سے وہ لوگ عوام سے جس تربیت واطاعت کی امیدیں رکھتے ہیں وہ عنقاء ہوجاتی ہیں۔ حالانکہ سب کے باہم مل بیٹھنے سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی باتیں ردّ وبدل سے محفوظ رہتی ہیں اور حقیقی شکل میں لوگوں تک پہنچتی ہیں اور پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مجالس کی کثرت پیش آمدہ مسائل میں کثرت اختلاف کا سبب بھی ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں دین میں مختلف اقوال سامنے آتے ہیں اور یہی وہ چیز ہے جس کا اندیشہ عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے زمانے کے لوگوں اور آئندہ نسلوں سے تھا۔ [3] فاروقی نظام احتساب یعنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مہاجرین صحابہ کے بارے میں بتایا کہ جب اللہ تعالیٰ انہیں زمین پر غلبہ عطا فرما دے گا تو وہ چار کام کریں گے، اقامت نماز، ادائیگی زکوٰۃ، بھلائی کا حکم اور برائی پر پابندی۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے: الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللّٰهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللّٰهِ كَثِيرًا وَلَيَنْصُرَنَّ اللّٰهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللّٰهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ (40) الَّذِينَ إِنْ
[1] تفسیر القرطبی: ۱۵/ ۲۵۶ [2] شہید المحراب، ص: ۲۰۸