کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 251
کے درمیان انصاف نہیں کیا، آپ نے مجھ کو عزت دی اور مجھے میری کنیت سے یعنی ابوالحسن کہہ کر پکارا، جب کہ میرے حریف کو اس کی کنیت سے نہیں پکارا۔ (یعنی اس کا نام لیا) عمر رضی اللہ عنہ نے بڑھ کر علی رضی اللہ عنہ کی پیشانی چوم لی، اور کہا: اللہ مجھے اس زمین پر باقی نہ رکھے جس پر ابوالحسن نہ ہوں۔ [1] جریر بجلی رضی اللہ عنہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کو نصیحت کرتے ہیں: عاصم بن بہدلہ عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں میں سے ایک آدمی سے روایت کرتے ہیں۔ اس نے کہا کہ ہم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس تھے، مجلس میں ایک آدمی کی ہوا خارج ہوئی اور ادھر نماز کا وقت ہوگیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں زور دے کر کہتا ہوں کہ جس کی ہوا خارج ہوئی ہے وہ اٹھے اور جا کر وضو کرلے تو جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ نے کہا: اے امیر المومنین ہم سب کو حکم دیجیے کہ اٹھیں اور جا کر وضو کریں۔ اس میں زیادہ عیب پوشی ہے۔ چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا۔ [2] ایک غلام قریش کے گھرانے میں شادی کا پیغام دیتا ہے: عمر رضی اللہ عنہ نے مختلف قبائل کو ایک دوسرے سے رشتہ نکاح قائم کرنے کی ہمت افزائی کی، تاکہ تمام قبائل میں باہمی محبت پیدا ہوجائے۔ یہاں تک کہ ایک غلام نے قریش کے ایک آدمی کو اس کی بہن سے نکاح کا پیغام دیا، لیکن قریشی نے انکار کردیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے دونوں کے درمیان دخل اندازی کی اور کہا: کیا وجہ ہے کہ تم اس سے نکاح کرنے سے انکار کرتے ہو؟ وہ با صلاحیت آدمی ہے، اس کے پاس دنیا کی بھلائی یعنی مال، اور آخرت کی بھلائی یعنی تقویٰ بھی ہے۔ اگر تمہاری بہن راضی ہو تو اس آدمی سے نکاح کردو۔ چنانچہ قریشی نے اپنی بہن کا نکاح اس غلام سے کردیا۔ [3] ۳: معاشرہ میں آپ کا رعب ودبدبہ اور لوگوں کی ضروریات کی تکمیل کے لیے آپ کی تڑپ: لوگوں کے دلوں میں عمر رضی اللہ عنہ کا احترام بھی تھا اور رعب بھی، ایسا رعب جو ایک آہنی عزم کے انسان ہی کا ہوسکتا ہے۔ اور اس کی روشن مثال یہ ہے کہ انہوں نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی معزولی کا پروانہ اس وقت جاری کیا جب ان کی شہرت بام عروج پر تھی۔ جنگ میں ان کی قیادت بلکہ محض موجودگی بھی کامیابی اور فتح مندی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی، ہر طرف سے ان کو مدح وتحسین کا خراج پیش کیا جا رہا تھا۔ ان کا قائدانہ وفاتحانہ اقبال اپنے نقطۂ عروج پر تھا، ایسے عالم میں اور ایسے وقت میں جب کہ مسلمانوں کو ان کی قیادت کی سخت ضرورت
[1] صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۲۶۴۳۔ مسند احمد، حدیث نمبر: ۱۳۹۔ الموسوعۃ الحدیثیۃ ۔ [2] صحیح البخاری، حدیث نمبر: ۱۴۷۲۔ صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۱۰۳۵