کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 250
کہا: اور دو کی گواہی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وَاثْنَانِ‘‘ اور دو کی گواہی بھی۔ آپ کا بیان ہے کہ پھر ہم نے ایک کے بارے میں نہیں پوچھا۔ [1] سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی نوازش و عطاء اور حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کا انکار: عروہ بن زبیر سے روایت ہے کہ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا، آپ نے مجھ کو دیا، میں نے آپ سے دوبارہ مانگا، آپ نے پھر دیا، میں نے آپ سے تیسری بار مانگا، آپ نے مجھے پھر دیا، اور کہا: (( یَا حَکِیْمُ اِنَّ ہٰذَا الْمَالَ خَضِرَۃٌ حُلْوَۃٌ ، فَمَنْ اَخَذَہَا بِسَخاوَۃِ نَفْسٍ بُوْرِکَ لَہٗ فِیْہِ ، وَمَنْ اَخَذَہٗ بِاِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ یُبَارَکْ لَہٗ فِیْہِ ، وَکَانَ کَالَّذِیْ یَاْکُلُ وَلَا یشْبَعُ الْیَدُ الْعُلْیَا خَیْرٌ مِّنَ الْیَدِ السُّفْلٰی۔)) ’’اے حکیم! یہ مال بہت سرسبز اور میٹھی چیز ہے، جس نے اس کو سخاوت نفس سے لیا، اس کے مال میں برکت دی گئی، اور جس نے اس میں (مزید سے مزید تر کے لیے) لالچ کیا اس کے مال میں برکت نہیں دی جائے گی۔ وہ اس آدمی کی طرح ہوگا جو کھاتا ہے، لیکن آسودہ نہیں ہوتا، اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔‘‘ حکیم رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا، میں اب آپ کے بعد اپنی وفات تک کسی سے کچھ نہ مانگوں گا۔ بعد کے ادوار میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حکیم رضی اللہ عنہ کو کچھ دینا چاہا لیکن آپ نے لینے سے انکار کردیا۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے بلایا تاکہ کچھ دے دیں، لیکن آپ نے انکار ہی کیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے مسلمانو! میں نے ان (حکیم) کے لیے مال فے کا حصہ لگایا اور ان کو دینا چاہا لیکن انہوں نے لینے سے انکار کردیا۔ بہرحال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حکیم رضی اللہ عنہ نے پھر کسی سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کیا۔ [2] سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ ، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی پیشانی چومتے ہیں: ایک آدمی عمر رضی اللہ عنہ کے پاس علی رضی اللہ عنہ کی شکایت لے کر آیا، عمر رضی اللہ عنہ جب معاملہ کے تصفیہ کے لیے بیٹھے تو علی رضی اللہ عنہ سے کہا: اے ابوالحسن! اپنے حریف کے سامنے آؤ، علی رضی اللہ عنہ کا چہرہ غصہ سے بھر گیا، عمر رضی اللہ عنہ نے معاملے کا تصفیہ کیا، اور پھر علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے ابوالحسن کیا آپ اس وجہ سے غصہ ہوگئے کہ میں نے آپ کو آپ کے حریف کے برابر کھڑا کیا؟ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نہیں، بلکہ اس لیے غصہ ہوں کہ آپ نے میرے اور میرے حریف
[1] الشیخان أبی بکر وعمر، بروایت بلاذری، ص: ۲۲۵ [2] مناقب عمر، ص: ۱۲۹۔ فن الحکم ص: ۳۶۷