کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 248
ہزار دے دو، اس آدمی کو ایک ہزار درہم دئیے گئے، آپ نے چار مرتبہ یہی حکم دیا اور وہ چاروں مرتبہ دراہم سے نوازا گیا۔ عمر رضی اللہ عنہ کی کثرت ذرّہ نوازی سے اس آدمی کو شرم آگئی، اور وہ باہر نکل گیا، آپ نے اس کے بارے میں پوچھا کہ وہ کہاں گیا؟ تو آپ کو بتایا گیا کہ آپ کی کثرت عنایت پر وہ شرما گیا تھا اور چلا گیا۔ آپ نے فرمایا: اگر وہ ابھی ہوتا تو جب تک ایک درہم باقی رہتا میں مسلسل اسے دیتا ہی رہتا۔ وہ ایسا آدمی تھا جو راہِ جہاد میں زخمی کیا گیا، جس سے اس کے چہرے پر گڑھے پڑگئے۔ [1] فاروقی تمنا: ایک مرتبہ سیّدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا: آپ لوگ اپنی اپنی تمنا بیان کیجیے۔ کسی نے کہا: میری تمنا ہے کہ اگر یہ گھر سونے سے بھرا ہوتا تو میں اسے اللہ کے راستہ میں صدقہ کردیتا۔ ایک نے کہا: اگر یہ گھر ہیرے جواہرات سے بھرا ہوتا تو میں اسے اللہ کے راستے میں صدقہ کردیتا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اور بھی تمنا کرو۔ انہوں نے کہا: ہم اور کیا تمنا کریں، ہم نہیں جانتے۔ آپ نے فرمایا: میری آرزو اور تمنا یہ ہے کہ یہ گھر ابوعبیدہ بن جراح، معاذ بن جبل، ابوحذیفہ کے غلام سالم، اور حذیفہ بن یمان جیسے لوگوں سے بھر جاتا [2] اور میں انہیں اللہ کی راہ میں استعمال کرتا۔ [3] یہ لوگ آپ کے اسلامی بھائی تھے، عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے سچے دوستوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا: راست گو بھائیوں کی صحبت اختیار کرو، اور ان کے زیر سایہ زندگی گزارو، وہ لوگ خوش حالی میں سامان زینت، اور مصیبت کے وقت زادِ راہ ہیں۔ اور اپنے بھائی کے معاملے کو بحسن وخوبی نمٹاؤ، تاکہ اس سے تمہیں کوئی پریشانی نہ لاحق ہو۔ اپنے دشمن سے دور رہو۔ اور اپنے دوستوں سے ہوشیار رہو مگر یہ کہ وہ امین ہو۔ اور امین وہی ہوسکتا ہے جس کے دل میں اللہ کا خوف ہو۔ فاجر کی صحبت نہ اختیار کرو کہ اس کے فجور کو تم بھی سیکھ لو، نہ اسے اپنے بھید سے خبردار کرو، اور اپنے معاملہ میں اس آدمی سے مشورہ لو جو اللہ سے ڈرتا ہو۔ [4] سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ اپنے کسی اسلامی بھائی کو رات کے وقت اس طرح یاد کررہے تھے: ہائے رات کی لمبائی، (تو کب ختم ہوگی) جب صبح کی نماز پڑھی تو ان کے پاس گئے، اور ملاقات ہوئی تو ان سے چمٹ گئے اور گلے لگا لیا۔ [5] آپ کہتے تھے: اگر میں اللہ کے راستہ میں نہ چلوں، اللہ کی اطاعت میں اپنی پیشانی خاک آلود نہ کروں، یا ان لوگوں کی مجلس میں شرکت نہ کروں جو بھلی اور حکمت کی باتوں کو ایسے ہی لے لیتے ہیں جیسے کہ پھل چنا جاتا ہے،
[1] مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، حدیث نمبر: ۲۵۴۲ [2] الشیخان أبوبکر وعمر رضی اللّٰه عنہما ، بروایت بلاذری، ص: ۱۷۴، ۱۷۵