کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 245
ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ عبداللّٰہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ کی پیشانی کو بوسہ دے، اور سب سے پہلے میں شروع کرتا ہوں: بزرگ صحابی عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ کو روم والوں نے قید کرلیا اور پکڑ کر اپنے بادشاہ کے پاس لائے۔ بادشاہ نے کہا: نصرانی بن جاؤ، میں تم کو اپنی بادشاہت میں شریک کرلوں گا، اور اپنی بیٹی سے تمہاری شادی کردوں گا۔ آپ نے اس کو جواب دیا: اگر تم اپنی پوری بادشاہت دے دو اور اہل عرب اپنی پوری جائداد سونپ دیں تاکہ میں دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے پلک جھپکنے تک پھر جاؤں تو ایسا ہرگز نہیں کرسکتا۔ بادشاہ نے کہا: تب میں تم کو قتل کردوں گا۔ آپ نے فرمایا: تمہاری مرضی۔ بادشاہ نے حکم دیا اور آپ تختۂ دار پر لٹکائے گئے، اور تیر اندازوں کو حکم دیا کہ اس کے ہاتھوں اور پاؤں کے قریب سے اس پر تیر برسائیں اور وہ خود آپ پر مذہب نصرانیت پیش کرتا رہا۔ پھر آپ کو تختہ دار سے اتارنے کا حکم دیا اور آپ اتار لیے گئے، پھر ایک ہانڈی اور ایک روایت کے مطابق پیتل کا خوب بڑا دیگچہ لانے کا حکم دیا، اور اسے خوب گرم کیا گیا، پھر ایک مسلمان قیدی کو لایا گیا اور اسے آپ کے سامنے دیگچے میں ڈال دیا، چند ہی لمحوں میں اس کی صرف ہڈیاں نظر آنے لگیں۔ پھر اس نے آپ کو مذہب نصرانیت قبول کرنے کی دعوت دی، لیکن آپ نے انکار کردیا۔ چنانچہ اس نے آپ کو اس دیگچے میں ڈالنے کا حکم دے دیا، آپ جونہی چرخی پر لٹکائے گئے تاکہ دیگ میں ڈالے جائیں، آپ رونے لگے۔ بادشاہ کو ان کے نصرانی ہونے کی امید ہوگئی۔ اس نے پھر نصرانیت کی طرف بلایا۔ آپ نے فرمایا: میں اس لیے رو رہا ہوں کہ میرے پاس ایک ہی جان ہے جو اللہ کے راستے میں اس وقت دیگ میں ڈالی جا رہی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ کاش میرے جسم میں جتنے بال ہیں اتنی ہی میرے پاس جانیں ہوتیں جو اسی طرح اللہ کے راستے میں تکلیف برداشت کرتیں۔ بعض روایتوں میں ہے کہ بادشاہ نے آپ کو قید میں ڈال دیا، اور چند دنوں تک آپ کو کھانا پانی کچھ نہ دیا، پھر کھانے پینے کے لیے سور کا گوشت اور شراب بھیجے لیکن آپ اس کے قریب نہ گئے۔ بادشاہ نے آپ کو طلب کیا اور کہا: تم نے کیوں نہیں کھایا؟ آپ نے جواب دیا: اگر میں کھانا چاہتا تو وہ میرے لیے (اس حالت میں) حلال تھا، لیکن میں ایسا نہیں ہوں کہ اپنی مصیبت پر تجھے ہنسنے کا موقع دوں۔ بادشاہ نے کہا: میری پیشانی چوم لو تو میں تمہیں چھوڑ دوں گا۔ آپ نے کہا: کیا میرے ساتھ دوسرے مسلمان قیدیوں کو بھی چھوڑو گے؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ نے اس کی پیشانی چوم لی، اس نے آپ کو اور آپ کے ساتھ دیگر مسلمان قیدیوں کو رہا کردیا اور جب آپ قید سے رہائی پا کر واپس آئے تو عمر بن خطاب نے فرمایا: ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ عبداللہ بن حذافہ کی پیشانی چومے، اور میں پہلے چومتا ہوں۔ پھر آپ کھڑے ہوئے اور ان کی پیشانی کو بوسہ دیا۔ [1]
[1] عمر بن الخطاب، صالح بن عبدالرحمن بن عبداللّٰه ، ص: ۶۶ [2] صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۲۵۲۳۔ مسند أحمد، حدیث نمبر: ۳۱۶ [3] فتح الباری: ۷/ ۷۰۶۔ الخلافۃ الراشدۃ، د/ یحیٰی الیحیٰی، ص: ۲۹۷