کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 244
ایک آدمی سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گواہی دینے آیا، آپ نے جاننا چاہا کہ کیا کوئی اس کا تزکیہ وتصدیق کرنے والا ہے۔ ایک آدمی نے کہا: اے امیر المومنین میں اس کی اچھائی اور صداقت کی گواہی دیتا ہوں۔ آپ نے پوچھا: کیا تم اس کے پڑوسی ہو؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے پوچھا: کسی دن اس کے ساتھ رہے ہو کہ اس کی حقیقت حال سے واقف ہو؟ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے پوچھا: کبھی تم نے اس کے ساتھ سفر کیا ہے؟ کیونکہ سفر اور پردیس لوگوں کو پرکھنے کا ذریعہ ہے اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے کہا: شاید تم نے اسے مسجد میں اٹھتے بیٹھتے اور نماز پڑھتے دیکھا ہے؟ اس نے کہا: ہاں۔ آپ نے فرمایا: جاؤ تم اس کو نہیں پہچانتے۔ [1] واقعات وشواہد بتاتے ہیں کہ خدمت اسلام کے لیے عظیم کارناموں کے بدلے مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت اللہ کے فضل واحسان سے اور اعزاز واحترام فاروقی سے نوازی گئی، اسی سلسلہ کے چند واقعات کو یہاں ذکر کیا جاتاہے: جب لوگوں نے کفر کیا تو تم ایمان لائے، جب انہوں نے پیٹھ پھیری تو تم آگے آئے، جب انہوں نے بے وفائی کی تو تم نے وفاداری کا ثبوت دیا: عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں اپنی قوم کے کچھ لوگوں کو لے کر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، آپ قبیلہ ’’طی‘‘ کے ہر فرد کے لیے دو ہزار درہم مقرر کرنے لگے، اور مجھے نظر انداز کردیا، میں آپ کے سامنے آکھڑا ہوا، لیکن آپ نے پھر نظر انداز کردیا، پھر میں بالکل آپ کی نگاہوں کے سامنے آکھڑا ہوا، لیکن آپ نے مجھ پر توجہ نہ دی۔ میں نے کہا: اے امیر المومنین! آپ مجھے پہچانتے ہیں؟ آپ ہنسنے لگے، یہاں تک کہ لوٹ پوٹ گئے، پھر کہا: ہاں، اللہ کی قسم! تمہیں یقینا پہچانتا ہوں، جب انہوں نے کفر کیا تب تم ایمان لائے، جب انہوں نے پیٹھ پھیری تب تم آگے آئے، جب انہوں نے بے وفائی کی تب تم نے وفاداری کا ثبوت دیا اور سب سے پہلی زکوٰۃ جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے چہروں کو روشن کیا وہ قبیلہ طی کی زکوٰۃ تھی، تم اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے۔ پھر آپ نے عدی سے معذرت کی اور کہا: میں نے ان لوگوں کے لیے وظیفہ مقرر کیا ہے جن کو فاقہ نے گھیر لیا ہے، حالانکہ وہ اپنی قوم کے سردار رہے ہیں اور یہ ان کا حق بنتا ہے۔ [2] اور ایک روایت میں ہے کہ عدی رضی اللہ عنہ نے کہا: تب مجھے کوئی پروا نہیں۔ [3]
[1] شہید المحراب، ص: ۲۰۵۔ امیر وقت کا کسی خاتون سے اس کی صلاحیت اور علم وفہم کی بنیاد پر مشورہ لینا اور بات ہے اور خواتین کو پارلیمنٹ کی زینت بنانا اور ان کا الیکشن میں کھڑا ہونا اور بات ہے، خلفائے راشدین کے عمل سے دور حاضر کے پارلیمانی نظام پر استدلال غلط ہے۔ (مترجم) [2] أخبار عمر، ص:۳۳۹۔ سراج الملوک، ص:۱۰۹ [3] فقہ الائتلاف/ محمود محمد الخزندار، ص: ۱۶۴