کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 243
چیز کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے جسے اسلام کے علاوہ دوسری جگہوں پر تلاش کیا جاتا ہے۔ امیر المومنین ملکی معاملات میں عورت سے مشورہ لیتے ہیں، اور اس کی رائے پسند بھی کرتے ہیں۔ [1] سیّدناعمر رضی اللہ عنہ خود کو مجاہدین کے بچوں کا باپ شمار کرتے تھے، جن خواتین کے شوہر جہاد پر ہوتے، آپ ان کے دروازوں پر جا کر پوچھتے: کیا تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہے؟ آپ لوگوں کو کچھ خریدنا ہے؟ مجھے پسند نہیں کہ خرید وفروخت میں تم دھوکا کھا جاؤ، پھر وہ عورتیں اپنی چھوٹی بچیوں کو آپ کے ساتھ بھیج دیتیں، آپ بازار میں داخل ہوتے تو آپ کے پیچھے بے شمار بچے اور بچیاں ہوتیں، آپ ان کی ضروریات خرید کر دیتے، اور جس کے پاس رقم نہ ہوتی اسے اپنی طرف سے خرید کر دیتے، جب کسی سرحد سے مجاہدین کے پاس سے حکومتی کارندہ آتا تو مجاہدین کے خطوط ان کی بیویوں کے گھر گھر جا کر بذات خود پہنچاتے، اور کہتے: تمہارے خاوند اللہ کے راستے میں ہیں، اور آپ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بستی میں ہیں۔ اگر تمہارے پاس خط کا پڑھنے والا کوئی ہو تو ٹھیک ہے ورنہ دروازے کی آڑ میں قریب آجاؤ تاکہ تمہیں خط پڑھ کر سنا دوں۔ پھر فرماتے: حکومتی کارندہ فلاں دن سرحد پر مجاہدین کے پاس جانے والا ہے، لہٰذا آپ لوگ خط کا جواب لکھ دیں، تاکہ میں تمہارے خطوط بھیج سکوں۔ پھر آپ کاغذ اور دوات لے کر ان کے پاس جاتے اور کہتے دوات اور کاغذ حاضر ہے، دروازے سے قریب ہوجاؤ، تاکہ تمہارا پیغام لکھ دوں، اس طرح آپ مجاہدین کی بیویوں کے پاس فرداً فرداً جاتے اور ان کے خطوط لے کر ان کے شوہروں کے پاس بھیج دیتے۔ [2] ۲: رعایا کے بہترین کارناموں کا لحاظ: سیّدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے بہترین کارناموں کا لحاظ رکھتے تھے۔ آپ کے پاس مردم شناسی کا نہایت دقیق پیمانہ تھا، چنانچہ آپ نے فرمایا: ’’تم کو کسی آدمی کی شہرت دھوکے میں نہ ڈال دے، اچھا اور کامل آدمی وہ ہے جو امانت دار ہو اور لوگوں کی غیبت کرنے سے دُور رہے۔‘‘ [3] آپ یہ بھی کہتے تھے: ’’کسی شخص کی نماز اور اس کے روزے سے دھوکہ نہ کھاؤ، بلکہ اس کی دانائی اور سچائی کو دیکھو۔‘‘ اور ایک مرتبہ فرمایا: ’’مجھے تمہارے بارے میں دو قسم کے لوگوں سے کوئی خوف نہیں ہے: پکا سچا مومن کہ جس پر ایمانی علامات ظاہر ہوں اور کافر جس کا کفر واضح ہو۔ البتہ میں تمہارے بارے میں اس منافق سے ڈرتا ہوں جو ایمان کے پس پردہ غیر ایمانی عمل کرتا ہے۔‘‘
[1] البیان والتبیین: ۲/ ۱۰۱۔ فرائد الکلام، ص: ۱۱۳ [2] الإدارۃ العسکریۃ فی الدولۃ الإسلامیۃ، د/ سلیمان آل کمال: ۲/ ۷۶۴ [3] تاریخ الإسلام، عہد الخلفاء الراشدین، ذہبی، ص: ۲۹۸، ۲۹۹ [4] تطور تاریخ العرب السیاسی والحضاری، د/ فاطمۃ الشامی، ص: ۱۷۵