کتاب: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ شخصیت اور کارنامے - صفحہ 242
سے پہلے وہ گواہی دیں گے، اور ان کے بازاروں میں ہنگامہ ہوگا۔‘‘ تم اسے کیوں طلاق دے رہے ہو؟ ایک شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دینے کا ارادہ کیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: تم اسے کیوں طلاق دے رہے ہو؟ اس نے کہا: وہ مجھے محبوب نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: کیا سارے گھر محبت ہی کی وجہ سے بنائے جاتے ہیں؟ کہاں ہے نگرانی اور کہاں ہے حفاظت؟ [1] خنساء رضی اللہ عنہا کی اولاد کا وظیفہ: جنگ قادسیہ کے موقع پر جب سیّدہ خنساء رضی اللہ عنہا کے چاروں بیٹے شہید ہوگئے اور عمر رضی اللہ عنہ کو اس کی خبر ملی تو آپ نے فرمایا: خنساء کو ان کے چاروں بیٹوں کا وظیفہ (پنشن) تاحیات دیتے رہو، پھر خنساء اپنی پوری زندگی اپنی اولاد میں سے ہر ایک کی طرف سے ہر مہینہ دو سو درہم لیتی رہیں۔ [2] ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا بیت المال سے قرض لیتی ہیں اور تجارت کرتی ہیں: ابوسفیان رضی اللہ عنہ سے پہلے، ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا دورِ جاہلیت میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے چچا حفص بن مغیرہ کی زوجیت میں تھیں، ہند رضی اللہ عنہا کا شمار قریش کی خوبصورت اور ذہین عورتوں میں ہوتا تھا۔ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بھی آخری عمر میں انہیں طلاق دے دی، تو انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ کے حکم سے بیت المال سے چار ہزار درہم قرض لیا، اور ’’کلب‘‘ کے شہروں کی طرف تجارت کرتے ہوئے اپنے بیٹے معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچ گئیں۔ وہ اس وقت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے شام کے گورنر تھے، ان سے کہا: اے میرے بیٹے! عمر بہت اچھے آدمی ہیں، تمام کام صرف اللہ کی رضا کے لیے کرتے ہیں۔ [3] خلافت راشدہ کے دور میں عورت کا اپنا مخصوص مقام تھا، اور یہ مقام ومرتبہ اسے اسلام نے عطا کیا تھا، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ عہد خلافت راشدہ میں عورت نے مختلف فکری، ادبی، اور تجارتی میدانوں میں شرکت کی، چنانچہ سید ہ عائشہ، امّ سلمہ، حبیبہ بنت امّ حبیبہ ،ارویٰ بنت کریز بن عبد شمس، اور اسماء بنت سلمہ التمیمیۃ رضی اللہ عنہا نے فن حدیث، ادب اور فقہ وفتاویٰ میں مہارت حاصل کی، جب کہ ان کے علاوہ بعض دوسری خواتین مثلاً خنساء رضی اللہ عنہا نے شعر گوئی میں نمایاں مقام حاصل کیا۔[4]سیّدناعمر رضی اللہ عنہ عورت کا مقام ومرتبہ پہچانتے تھے اور جانتے تھے کہ عورت بھی ایک حساس اور باشعور مخلوق ہے، وہ بھی دیکھتی سوچتی اور سمجھتی ہے۔ اس لیے آپ جس طرح مردوں سے مشورہ لیتے تھے عورتوں سے بھی مشورہ لیتے حتیٰ کہ بعض مواقع پر شفاء بنت عبداللہ عدویہ رضی اللہ عنہا کی رائے کو مقدم رکھتے، پس عورت کو کس
[1] مجمع الزوائد: ۱۰/ ۹۱۔ اس کے رجال ثقہ ہیں ۔